نکتہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره نحل/ آیه 43 - 44 مہاجرین کی جزا

چند اہم نکات


۱۔ ہجرت او رمہاجرین : آغاز اسلام میں مسلمانوں نے دو ہجرتیں کیں ۔ پہلی ہجرت نسبتاً مختصر تھی اس میں چند مسلمانوں نے ھجرت جعفر بن ابی طالب (علیه السلام) کی سر براہی میں حبشہ کی طرف ہجرت کی ۔ دوسری ہجرت ہمہ گیر تھی ۔ اس میں رسول اللہ اور تمام مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی ۔ زیر نظر آیات دوسری ہجرت سے متعلق ہیں ۔ ان آیات کی شان نزول بھی اس امر کی تائید کرتی ہے ۔
گذشتہ زمانے میں اور دور حاضر میں مسلمانوں کے لئے ہجرت کی دائمی اہمیت کے متعلق ہم سورہ نساء کی آیہ ۱۰۰ اور سورہ انفال کی آیہ ۷۵ کے ذیل میں تفصیلی بحث کر چکے ہیں ۔ 2
بہر حال مہاجرین کا مقام اسلام میں بہت بلند ہے ، خود پیغمبر اکرم اور بعد کے مسلمان سب ان کا خاص احترام کرتے تھے کیونکہ انہوں نے دعوت اسلام کی تو سیع کی خاطر اپنا تمام سر مایہ حیات کو ٹھوکر ماردی ۔ بعض نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالاصہیب ۻ بعض افراد نے اپنے سارے مال و متاع سے منھ پھیر لیا ۔
ان دنوں میں اگر ان مہاجرین کا ایثار نہ ہو تا تو مکہ کا تنگ ماحول اور اس میں موجود شیطانی عناصر ہر گز اجازت نہ دیتے کہ اسلام کی آواز کسی کے کانوں تک پہنچے یہ وہ آواز ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کے حلقوم میں دبا دیتے لیکن یہ مہاجرین تھے کہ جن کی اس سوچی سمجھی تحریک اور انقلاب کے ذریعے نہ صرف مکہ ان کے یر تسلط آگیا بلکہ اسلام کی آواز پوری دنیا کے کانوں تک پہنچ گئی ان کا یہ طرز عمل بعد کے مسلمانوں کے لئے اس قسم کے حالات میں ایک دائمی سنت کی حیثیت رکھتا ہے ۔
۲۔”ھاجروا فی اللہ“کا مفہوم : اس تعبیر میں لفظ ”سبیل “ تک ذکر نہیں ہوا۔ یہ در اصل ان مہاجرین کے انتہائی خلوص کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے صرف خدا کی راہ میں ، اس کی رضا کی خاطر اور ا س کے دین کی حفاظت کے لئے اس قسم کی ہجرت کی ، نہ کہ اپنی جان بچا نے کے لئے یا کسی دوسرے مادی مفاد کے لئے ۔
۳۔ من بعد ماظلموا “ کا مطلب : یہ جملہ نشاندہی کرتا ہے کہ میدان فوراًخالی نہیں کردینا چاہئیے بلکہ جب تک ممکن ہو قیام کرنا چاہئیے اور مشکلات کو بر داشت کرنا چاہئیے ۔ البتہ جس وقت دشمن کے آثار اور مظالم بر داشت کرنے کا نتیجہ اس کی جسارت میں اضافہ ہو اور مومنین کی کمزوری کے سواکچھ نہ ہو اس وقت ہجرت کرنا چاہیئے تاکہ زیادہ طاقت جمع کرنے اور زیادہ مضبوط مورچے قائم کرنے کا موقع مل سکے اور ہمہ گیر جہاد کے لئے بہتر جگہ میسر آسکے اور اہل حق کو فوجی ، ثقافتی اور تبلیغی محاذ پر کامیابی حاصل ہو سکے ۔
۴۔لنبوئنھم فی الدنیا حسنة“ کا مفہوم : یہ جملہ” بواٴت لہ مکاناً“ ( وہ مکان کہ جو میں نے اس کے لئے تیار کیا اور اسے اس میں جگہ دی ) کے مادہ سے لیا گیا ہے ، یہ جملہ نشاندہی کرتا ہے کہ حقیقی مہاجرین اگر چہ ابتداء میں اپنے مادی وسائل کھوبیٹھے تھے لیکن آخر کار انھیں مادی زندگی کے لحاظ سے بھی کامیابی حاصل ہوئی۔ 3
انسان آخر دشمن کی ضربوں میں رہ کر ذلت کے ساتھ کیوں مرجائے ؟ وہ شجاعت و جرا ء ت کے ساتھ ہجرت کیوں نہ کر جائے اور کیوں نہ نئی جگہ سے مقابلے کی تیاری کرے تاکہ اپنا حق لے سکے ۔
سورہٴ نساء کی آیہ ۱۰۰ میں یہی مسئلہ زیادہ صرحت سے بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد الہٰی ہے :
ومن یھاجر فی سبیل اللہ یجد فی الارض مراغماً کثیراً وسعة
جو لوگ اللہ کی راہ میں ہجرت کریں انھیں دنیا میں امن کی بہت وسیع جگہ ملے گی کہ جہاں رہ کر وہ دشمن کو رسوال کرسکتے ہیں ۔
۵۔ مہاجرین کی صفات: مہاجرین کی دو صفات بیان کی گئی ہیں صبر اور توکل ۔ ان کی ان صفات کو بیان کرنے کا مقصد واضح ہے کیونکہ انسانی زندگی میں پیش آنے والے ایسے روح فرسا حوادث میں سب سے پہلے صبر و استقامت ضروری ہے جتنی مصیبت زیادہ ہوگی پھر اللہ پر توکل اور اعتماد بھی ضروری ہے اصول طور پر ایسی مشکلات میں اگر انسان کا کوئی مستحکم اور قابل ِ اطمینان سہارا نہ ہو تو اس کے لئے صبر و استقامت ممکن نہیں ہے ۔
بعض نے کہا کہ صبر کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ اس راہ میں پہلے خواہشات ِ نفسانی کے مقابلے میں صبر و استقامت ضروری ہے اور توکل کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ اس راستے کا آخری یہ ہے کہ انسان اللہ کے سوا ہر کسی سے کٹ جائے اور اس سے پیوستہ ہو جائے لہٰذا پہلی صفت آغاز سفر ہے اور دوسری اختتام سفر ۔4
بہر حال بیرونی ہجرت اندرونی ہجرت کے بغیر ممکن نہیں ہے انسان کو چاہئیے کہ پہلے وہ اندرونی مادی برائیوں کو چھو ڑکر اخلاقی فضائل کی طرف ہجرت کرے تاکہ وہ بہرونی طور پر اس قسم کی ہجرت کرسکے اور دار الکفر کی ہر چیز کو ٹھو کر مار کر دار الایمان کی طرف منتقل ہو سکے ۔

 


۱۔مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
2۔تفسیر نمونہ جلد ۴ ص ۸۵( اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع کریں۔
3۔” لنبوئنھم“ اصل میں ” بواء“ کے مادہ سے جگہ کے اجزاء مساوی ہونے کے معنی میں ہے ۔ اس کے برعکس ”نبوہ“( بر وزن ”مبدء “) جگہ کے اجزاء مساوی نہ ہونے کے میں ہے ۔ لہٰذا ” بواٴت لہ مکانا“ کا معنی ہے : میں نے اس کے لئے جگہ صاف کی لہٰذا یہ کسی کے لئے کوئی جگہ تیار کرنے کے معنی میں ہے ۔
4۔ تفسیر کبیر فخر رازی ، شیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
سوره نحل/ آیه 43 - 44 مہاجرین کی جزا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma