۱۔ رزق کے اسباب اور سر چشمے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
۲۔ دوسروں سے برابری کا سلوکرز ق میں اختلاف کا سبب


۱۔ رزق کے اسباب اور سر چشمے : جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اس میں شک نہیںکہ خدا داد صلاحیتوں اور نعمتوںکے لحاظ سے انسان مختلف ہیں لیکن کامیابیوں کی اصل بنیاد انسان کی سعی و کوشش اور جدو جہد ہی ہے ۔ زیادہ کوشش کرنے والے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں اور سست و کم و کوش محروم رہتے ہیں ۔
اسی بناء پر انسان کے نصیب کو اس کی سعی و کوشش سے مربوط قرار دیتا ہے اور صراحت سے کہتا ہے :
و ان لیس للانسان الا ما سعیٰ
یقینا انسان کے لئے بس وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے (نجم۳۹)
نیز اس کے ساتھ ساتھ تقویٰ درست راستے کا انتخاب ، امانتداری ، نظام قوانین ِ الہٰی کی پاسداری اور عدل و انصاف کے اصولوں کے مطابق عمل بھی اس میں غیر معمولی اثر رکھتا ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے :
ولو ان اھل القریٰ اٰمنوا و اتقوا لفتحنا علیھم برکات من السماء و الارض
اگر شہروں اور قصبوں کے باسی ایمان لے آئیں اور تقویٰ اختیار کریں توہم ان پر زمین و آسمان کی بر کتوں کے دروازے کھول دیں ۔ (اعراف۹۶)
نیزوہ فرماتا ہے :
ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاًو یر زقہ من حیث لا یحتسب
جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اسے رزق کی فراوانی عطاکرتا ہے اور جہاں سے اسے گمان نہیں ہوتا وہاں سے عطا کرتا ہے ۔(طارق۲،۳)
اسی بناء پر انفاق اورراہ خدا میں خرچ کرنے کو وسعت رزق کا وسیلہ قرار دیتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے :۔
ان تقرضوا اللہ قرضاًحسناً یضاعفہ لکم
اگر تم اللہ کو قرض حسنہ دو یعنی اس کی راہ میں خرچ کرو تو وہ اسے کئی گناہ کر دے گا ۔ (تغابن۱۷)
شاید یاد دہانی کی ضرورت نہ ہو کہ اجتماعی زندگی میں سے ایک فرد یا ایک گروہ کے چلے جانے سے سارے معاشرے کو نقصان پہنچتا ہے ۔ اسی لئے فرد کی نگہداری اور مدد کرنا سارے معاشرے کے لئے فائدہ مند ہے (اس لئے کہ معنوی اور انسانی پہلووٴں سے قطع نظر بھی یہ فائدہ ہے ) ۔
خلاصہ یہ کہ معاشرے کے اقتصادی نظام پر تقویٰ ، درست روی، پاکیزگی ، امداد باہمی ایک دوسرے سے تعاون اور اتفاق کے اصول کار فرما ہوں تو وہ طاقت و ر اور سر بلند ہوگا۔
لیکن اس کے برعکس معاشرے میں لوٹ کھسوٹ ، دھوکا دہی ، غارتگری ، تجاوزاور دوسروں کو نظر انداز کردینے کا عمل جاری ہوتو وہ اقتصادی لحاظ سے پس ماندہ رہے گا اور اس کی مادی زندگی بھی پراگندگی اور انتشار کا شکار ہو جائے گی۔
اسلامی روایات میں حصول رزق کے لئے سعی وکوشش پر زور دیتے ہوئے اسے تقویٰ کے ساتھ ہونے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے یہاں تک کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
لاتکسلوا فی طلب معایشکم فان اٰبائناکانوا یرکضون فیھاو یصٰلیونھا
حصول رزق میں سستی سے کام نہ لو ۔ کیونکہ ہمارے آباء اجداد اس راہ میں دوڑتے تھے اور اسے طلب کرتے تھے ۔(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ص۴۸) ۔
ان ہی امام بزرگوار سے منقول ہے :
الکاد علی عیالہ کالمجاھد فی سبیل اللہ
جو شخص اپنے ہل و عیال کے تلاش رزق کے لئے نکلتا ہے وہ مجاہد ِ راہ خدا کی طرح ہے ۔(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ ص۴۳)
یہاں تک کہ حکم دیا گیا ہے کہ مسلمان صبح سویرے جتنی جلدی ہو سکے اپنے گھروںنکلیں اور اپنی زندگی کے لئے سعی و کوشش کریں ۔ (وسائل الشیعہ جلد ۱۲ص۵۰)
وہ اشخاص کہ جن کی دعائیں قبول نہیں ہوتی ان میں سے وہ افراد بھی شامل ہیں جن کا جسم صحیح و سالم ہو مگر وہ گھر میں پڑے رہتے ہوں اور کشایش رزق کے لئے صرف دعا کرتے رہتے ہوں ۔
یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ پھر بہت سی روایات میں یہ کیوں کہا گیا ہے کہ روزی خداکے ہاتھ میں ہے اس کے حصول کے لئے کوشش کرنے کی مذمت کی گئی ہے ۔
اس سوال کے جواب میں مندرضہ ذیل دو نکات کی طرف توجہ کرنا چاہئیے :
۱۔ اسلامی مصادر میں غور و خوض کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ زیر بحث مسئلہ ہو یا کوئی اور، جو آیات و روایات ابتدائی نظر میں ایک دوسرے سے متضاد نظر آتی ہے در اصل ان میں سے ہر ایک مسئلے کے ایک پہلو کے بارے میں ہوتی ہے جبکہ دوسرے پہلووٴں سے غفلت کے باعث تضاد کا شک گذرتا ہے ۔
وہ مقام کہ جہاں لوگ دنیا پر ریجھ جاتے ہیں ان کا حرص بہت زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ مادی دنیا کی زرق و برق زندگی کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور اس کے حصول کے لئے کسی جرم اور زیادتی سے نہیں چوکتے وہاں پیہم تاکیدی احکام کے ذریعے انھیں اس دنیا کی ناپائیداری اور دنیا وی مال و جاہ کی بے وقعتی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جبکہ وہ مقام کہ جہاں کچھ لوگ زہد وتقویٰ کے بہانہ سے کام اور سعی و کوشش سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں وہاں انھیں محنت ، کام کاج اور کوشش کی اہمیت یا دلائی گئی ہے ۔
در اصل سچے رہبروں کا یہی طرز عمل ہونا چاہئیے کہ وہ افراط سے بھی مناسب طریقے سے روکیں اور تفریط سے بھی ۔
جن آیات و روایات میں تاکید کی گئی ہے کہ رزق خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس نے ہر شخص کا حصہ معین کیا ہوا ہے در حقیقت یہ حرص و طمع ، دنیا پرستی اور بے اصول و بے حدود سمیٹنے سے روکنے کے لئے ہے اور ان کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انسان کے نشاط کار کے ولولوں کو ختم کر دیا جائے ۔ اور ایک آبر ومندانہ ، خود کفایت اور اپنے قدموں پر کھڑی زندگی کی جد و جہد کو ختم کردیا جائے ۔
اس حقیقت کی طرف توجہ کرتے ہوئے ان روایات کی تعبیر واضح ہو جاتی ہے کہ جن میں کہا گیا ہے کہ بہت سی روز یاں ایسی ہیں کہ اگر تم ان کے پیچے نہ جاوٴتو وہ تمہارے پیچھے آئیں گی۔
۲۔ توحیدی نقطہ ٴ نگاہ سے کائنات کو دیکھا جائے تو ہر چیز خد اکی طرف منتہی ہو تی ہے اور ایک خدا پرست سچا موحد کسی چیز کو اپنی طرف سے نہیں سمجھتا بلکہ اس تک جو بھی نعمت پہنچی ہے اس کا سر چشمہ خدا ہی کو جانتا ہے وہ کہتا ہے ۔
بیدک الخیر انک علی کل شیء قدیر
ہر طرح کی نیکی اور خیرکی کلید تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہر چیز پر قادر اور توانا ہے (آلِ عمران ۲۶)
اس لحاظ سے ایک حقیقی توحید پرست کو ہر موقع پر اس حقیقت کی طرف متوجہ رہا چاہئیے یہاں تک کہ اس کی سعی و کا وش ، فکر اور آلات و اسبات ِ پیدا وار بھی دراصل خدا ہی کی طرف سے ہیں ۔ اس کی نگاہ ِ لطف لمحہ بھر کے لئے پھر جائے تو سب کچھ ختم ہو جائے۔
خد اپر ایمان رکھنا والا ایک شخص جب کسی سواری پر سوار ہوتا ہے تو کہتا ہے :
سبحان الذی سخرلنا ھٰذا
پاک ہے وہ خدا کہ جس نے اسے ہمارے لئے مسخر کیاہے ۔
جب وہ کوئی نعمت پاتا ہے تو زمزمہٴ توحید اس کے ہونٹوں سے نکلتا ہے :
وما بنا نعمة فمنک
ہمارے پاس جو بھی نعمت ہے بار الہٰا !تیری طرف سے ہے ۔
یہاں تک کہ انسانوں کی نجات کے لئے جب کوئی قدم اٹھاتا ہے تو پیروی ٴ انبیاء میں کہتا ہے :۔
وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت و الیہ انیب
میری توفیق صرف اللہ کی طرف سے ، میں نے اسی پر توکل کیا ہے او رمیں ایس کی طرف پلٹتا ہوں (ہود،۸۸)
لیکن ان تمام مباحث میں جو چیز مسلم ہے وہ یہ ہے کہ تلاش رزق کو نکلنا چاہیئے ۔ سعی و کو شش کرنا چاہئیے اور ا س کے لئے مثبت اور اصلاحی راستہ اختیار کرنا چاہئیے  وہ راستہ کہ جو ہر قسم کے افراط و تفریط سے پاک ہو ۔
رہی اس روزی کی بات کہ جو انسان کو بغیر کوشش کے مل جاتی ہے تو وہ فرعی مسئلہ نہ کہ اساسی اور بنیادی ۔ شاید اسی بناء پر حضرت علی علیہ السلام نے اپنے کلمات قصار میں پہلے درجے میں اس رزق کا ذکر فرمایا ہے کہ انسان جس کے لئے نکلتا ہے اور اس کے بعد رزق کا جو خود انسان کے پیچھے آتا ہے ۔
یا بن اٰدم ! الرزق رزقان : رزق تطلبہ ورزق طلبہ
اے ابن آدم ! رزق دو قسموں کا ہوتا ہے ایک وہ کہ جس کی تلاش میں تو نکلتا ہے اور دوسرا وہ کہ جو تیری تلاش میں آتا ہے ۔ 1


 


۔1کتب دعا میں اس جملے کا ذکر نماز عصر کی تعقیبات میں کیاگیا ہے ۔
۲۔ دوسروں سے برابری کا سلوکرز ق میں اختلاف کا سبب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma