مومن اور کافر کے لئے مثالیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره نحل/ آیه 75 -77

مومن اور کافر کے لئے مثالیں :


گذشتہ آیات میں ایمان اور کفر اور مومنین و مشرکین کے بارے میں گفتگو تھی ۔ زیر نظر آیات میں دو زندہ اور روشن مثالوں کے ذریعے ان کی حالت کو واضح کیا گیا ہے ۔
پہلی مثال میں مشرکین کو اس غلام مملوک سے تشبیہ دی گئی ہے جس کے بس میں کچھ نہیں ہوتا اور مومنین کو غنی و بے نیاز انسان سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جو اپنے وسائل سے سب کو فائدہ پہنچاتا ہے ۔
ارشادہ ہوتا ہے : اللہ غلام مملوک کا ذکر بطور مثال کرتا ہے کہ جس کے بس میں کچھ بھی نہیں ( ضَرَبَ اللهُ مَثَلاً عَبْدًا مَمْلُوکًا لاَیَقْدِرُ عَلَی شَیْءٍ) ۔
نہ تکوین میں اس کی کوئی قدرت ہے اور نہ تشریع میں ۔ کیونکہ ایک طرف وہ ہمیشہ اپنے آقا کی قید میں ہوتا ہے اور ہر لحاظ سے محدود ہوتا ہے اور دوسری طرف اسے اپنے مال میں ( وہ بھی اگر ہو تو ) کوئی حق تصرف نہیں ہوتا اور اسی طرح اپنی ذات سے متعلق دیگر امو رمیں بھی وہ آزاد نہیں ہوتا ۔
جی ہاں  بندوں کا غلام اور بندہ ہونے کا نتیجہ قید اور ہر لحاظ سے محدود یت کے سوا کچھ نہیں ۔
جبکہ اس کے مقابلے میں آزاد انسان کی مثال اس شخص کی سی ہے جسے رزق حسن اور طرح طرح کی روزی اور پاکیزہ نعمتیں میسر ہوں ( وَمَنْ رَزَقْنَاہُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا ) ۔
ان آزاد انسانوں کے پا س بہت سے وسائل ہیں کہ جن سے وہ چھپ کر بھی اور اعلانیہ بھی خرچ کرتے ہیں اور انفاق کرتے ہیں (فَھُوَ یُنفِقُ مِنْہُ سِرًّا وَجَھرًا) ۔
کیا یہ دونوں افرد برابر ہیں ( ھلْ یَسْتَوُونَ ) ۔
مسلم ہے کہ ایسا نہیں ہے لہٰذا ”تمام حمد اللہ کے لئے مخصوص ہے ۔(الْحَمْدُ لِلَّہِ ) ۔
وہ اللہ کے جس کا بندہ ٴ آزاد قدرت مند بھی ہے اور عطا کرنے والا بھی جبکہ بتوں کے بندے ناتواں، محدود، بے قدرت اور قیدی ہیں ” لیکن ان (مشرکین) میں سے اکثر نہیں جانتے (بَلْ اٴَکْثَرُھُمْ لاَیَعْلَمُونَ ) ۔۱
لیکن بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے ۔
اس کے بعد ایک اور مثال بتوں کے بندوں اور سچے مومنین کے بارے میں بیان کی گئی ہے بتوں کے بندوں کو مادر زاد گونگوں سے تشبیہ دی گئی ہے کہجو غلام اور ناتواں بھی ہیں اور سچے مومنین کو اس آزاد انسان سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جو قوت ِ گویائی رکھتا ہے ہمیشہ عدل و انصاف کی دعوت دیتا ہے اور صراط مستقیم پر قائم ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے اللہ نے دواشخاص کی مثال دی ہے ان میں سے ایک مادر زاد گونگا ہے اور کچھ اس کے بس میں نہیں (وَضَرَبَ اللهُ مَثَلاً رَجُلَیْنِ اٴَحَدُھُمَا اٴَبْکَمُ لاَیَقْدِرُ عَلَی شَیْءٍ ) ۔
وہ غلام ہونے کے باوجود اپنے مولاو آقا کے لئے بوجھ ہے (وَھُوَ کَلٌّ عَلَی مَوْلاَہُ) ۔یہی وجہ ہے کہ ”اسے جس کام کے لئے بھی بھیجا جائے وہ اچھا انجام نہیں دے سکتا ۔( اٴَیْنَمَا یُوَجِّہُّ لایَاٴْتِ بِخَیْرٍ) ۔
گویا اس میں چار منفی صفات ہیں :
۱۔ وہ مادر زاد گونگا ہے ۔
۲۔ بالکل نواں ہے ۔
۳۔ اپنے مالک کے لئے بوجھ ہے اور
۴۔جب اسے کسی کام کے لئے بھیجا جائے تو کوئی مثبت اقدام نہیں کرپاتا۔
یہ چار صفات اگر ایک دوسرے کی علت و معلوم ہیں مگر ایک انسان کی منفی حالت کی سوفی صدتصویر کشی کرتی ہیں کہ جس کے وجود سے کوئی خیر و برکت حاصل نہیں ہوتی اور جو معاشرے اور خاندان پر بوجھ ہے ۔
کیا ایسا شخص اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے کہ جو فصیح اور گویا زبان رکھتا ہے اور ہمیشہ عدل و انصاف کی دعوت دیتا رہتا ہے اور صاف راستے اور سیدھی راہ پر قائم ہے ۔( ھَلْ یَسْتَوِی ھُوَ وَمَنْ یَاٴْمُرُ بِالْعَدْلِ وَھُوَ عَلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ) ۔
یہاں اگر چہ دو ہی صفات بیان ہو ئی ہیں
ایک مسلسل عدل و انصاف کی صورت اور
دوسری طرز مستقیم اور صحیح راستہ کہ جو ہر قسم کے انحراف سے پا ک ہو۔
لیکن یہ دونوں صفات دوسری صفات کو واضح کرتی ہیں وہ شخص عدل و انصاف کی دعوت دیتا ہے ، کیا ہوسکتا ہے کہ وہ ایک گونگا ، بزدل اور بے وقعت انسان ہو۔ ہر گز نہیں ۔ایسا شخص  زبان گویا ، منطق محکم او ر ارادہ قوی اور شجاعت و شہامت کا حامل ہوگا۔
وہ شخص کہ جو راہ ِ مستقیم پر گامزن ہو کیا وہ بے دست و پا، ناتواں ، بے ہوش اور کم عقل انسان ہوسکتا ہے؟
ہر گز نہیں نہیں مسلم ہے کہ وہ ایک صاحب ِ فکر و نظر ، صاحب ِ کاوش و جستجو ، باہوش ، با تدبیر اور با استقامت شخص ہو گا ۔
ان دونوں کا موازہ کیا جائے تو بت پرستی میں وسیع فرق واضح ہو جاتا ہے اور ان دونوں نقطہٴ ہائے نظر اور مکاتب ِ فکر کے تحت تربیت پانے والوں کا فرق بھی واضح ہو جاتا ہے ۔
عام طور پر ہم نے دیکھا ہے کہ قرآن توحید کے بیان اور شرک کے خلاف گفتگو کو معاد اور قیامت کی عظیم عدالت کے مسائل سے مربوط اکردیتا ہے یہاں بھی ایسی ہی صورت حال ہے گذشتہ اور زیر بحث آیات شرک کی نفی اور اثبات توحید کے بارے میں ہیں اب گفتگو کا رخ معاد کی طرف ہو رہا ہے اور مشرکین کے بعض اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے ۔ پہلے ارشاد ہوتا ہے : اللہ آسمانوں اور زمین کے غیبی امور سے آگاہ ہے ۔( وَلِلَّہِ غَیْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔
گویا یہ اس اعتراض کا جواب ہے کہ جو معاد جسمانی کے منکر تھے اور کہتے تھے کہ ہم جس وقت مر جائیں گے ہماری خاک کے ذرے ادھر اُدھر بکھر جائیں گے کیسے ان کا علم ہو گا کہ وہ ہمیں جمع کر سکے ۔ علاوہ ازیں ، وہ کہتے ، اگر فرض کریں ہمارے خاک کے ذرے ادھر اُدھر بکھر جائیں گے تو کیسے ان کا علم ہو گا کہ وہ ہمیں جمع کر سکے۔ علاوہ ازیں ، وہ کہتے ، اگر فرض کریں ہمارے جسموں کے بکھرے ہوئے ذرات جمع بھی ہو جائیں اور ہمیں پھر سے زندگی بھی مل جائے ان جسموں کے بھولے بسرے ہوئے اعمال سے کون ااگاہ ہو گا اور کون ان کے نامہٴ اعمال کی پڑتال کرے گا ۔
زیر بحث آیت ایک ہی جملے میں اس سوال کے تمام پہلو وٴں کا جواب دیتی ہے کہ خدا آسمانوں اور زمین کے غیب کو جانتا ہے ، وہ ہرجگہ ہمیشہ حاضر ہے لہٰذا اصولی طور پر غیب و پنہاں کا اس کے لئے کوئی مفہوم ہی نہیں ۔ اس کے لئے تما م چیزیں شہود ہیں
یہ مختلف تعبیرات تو ہمارے وجود کے حساب سے ہیں اور ہماری منطق سے ہم آہنگ ہیں ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے :قیامت کا معاملہ تو پلک جھپکنے یا اس سے بھی کم تر سطح پر آسان ہے (وَمَا اٴَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ کَلَمْحِ الْبَصَرِ اٴَوْ ھُوَ اٴَقْرَبُ)2
یہ در حقیقت منکرین معاد کے دوسرے اعتراض کی طرف اشارہ ہے وہ کہتے تھے کہ یہ کام تو انتہائی مشکل ہے ۔ کون اسے انجام دینے کی قدرت رکھتا ہے ؟
قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے :تمہاری طاقت بہت کم ہے اس لئے تمہیں یہ کام مشکل دکھائی دیتاہے لیکن خدا کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں اس کے لئے یہ کام آسان سا ہے جیسے تمہارا پلک جھپکنا آسان سا بھی ہے اور تیزی سے انجام بھی پاجاتا ہے۔
یہ بات جاذب نظر ہے کہ قیام ِقیامت کو پلک جھپکنے یاجلدی سے کسی چیز کو دیکھنے سے تشبیہ دے کر مزید فرمایا گیا ہے ۔ (اوھو اقرب)( یا اس سے بھی نزدیک تر) یعنی نظر بھر دیکھنے کی تشبیہ بھی تنگی ٴ بیان کی وجہ سے ہے یعنی قیامت اس تیزی سے بر پا ہو گی کہ اس کے لئے مدت اور زمانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جو یہ ” کلمح البصر“ کہا گیا ہے یہ بھی اس لئے ہے کہ تمہاری منطق میں اس سے مختصر تر کوئی زمانہ نہیں ہے ۔
بہر حال یہ دو چھوٹے چھوٹے جملے اللہ کی بے انتہاء قدرت پرخصوصاً معاد اور انسان کے قبروں سے جی اٹھنے میں اس کی قدرت پر  زندہ ناطق اور منہ بولتے اشارے ہیں ۔ اسی لئے آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کیونکہ خدا ہر چیز پرتواناو قادرہے ( إِنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ)
۱۔ آزاداور قیدی انسان :بعض لوگوں کے نظرئے کے بر خلاف تو حید اور شرک کا مسئلہ صرف ایک اعتقادی اور ذہنی مسئلہ نہیں ہے بلکہ انسان کی ساری زندگی پر اثر انداز ہوتاہے اور ہر چیز کو اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے توحید کا پودا جس دل لگ جاتاہے اس دل کی زندگی اور رشد و نمو کا عامل بن جاتاہے کیونہ توحید انسانی نگاہ کو اس قدر وسیع کردیتی ہے کہ اس کا رشتہ لامتناہی ذات سے جوڑدیتی ہے ۔
لیکن اس کے بر عکس شرک انسان کو پتھر ، لکڑی کے بتوں کی انتہائی محدود دنیا میں محصور کردیتا ہے انسانوں کو بتوں کی طرح کمزور کر دیتا ہے اور انسان کی فکر ، نظر ، ہمت ، سعی اور توانائی کو اسی رنگمیں رنگ دیتا ہے ۔
زیر بحث آیت میں یہ حقیقت مثال کے پیرائے میں اس خوبصورتی سے بیان ہوئی ہے کہ اس سے عمدہ اور رساانداز ممکن نہیں ہے ۔
مشرک ”ابکم “ (گونگا)مادر زاد گونگاکہ جس کا عمل ا س کی فکری کمزوری اور عاری از منطق ہونے کا ترجمان اور وہ شرک کے چنگل میں گرفتار ہونے کی وجہ سے کوئی مثبت کام نہیں کرسکتا(لایقدر علی شیء ) ۔
وہ ایک آزاد انسان نہیں ہے بلکہ خرافات وموہوما ت کا قیدی ہے ۔ اپنی انہی صفات کی بناء پر وہ معاشرے پر ایک بوجھ ہے کیونکہ اس نے اپنی تقدیر کی مہاربتوں یا استعمار گر انسانوں کے ہاتھ میں دے رکھی ہے وہ ہمیشہ بندھا ہوا اور کسی پر انحصارکئے ہوئے ہوتا ہے جبکہ توحید آزادی اور استقلال کا آئیں ہے وہ جب تک توحید ک اذائقہ نہ چکھے اس بندھن سے آزاد نہیں ہو سکتا (وھو کل علی مولاہ ) ۔
اپنی یہ طرز فکر لئے ہوئے وہ جس راستے پر بھی قدم رکھے گا ، ناکام رہے گا اور کسی طرف اسے خیر و سعادت نصیب نہیں ہو گی” اینما یوجھہ لایاٴت بخیر“
کوتاہ فکری کے اس اسیر اور عاجز و ناتواں شخص کی زندگی کا کوئی ہدف اور پروگرام نہیں ہے یہ اس مرد آزاد و شجاع سے کسی قدر مختلف ہے جو نہ صرف خود عدل و داد پر کار بند ہے بلکہ ہمیشہ اپنے معاشرے میں عدل و داد کی حکمرانی کا پر چم بلند کئے رہتا ہے ، علاوہ ازیں ایک آزاد انسان منطقی فکر اور توحید کے فطری نظام سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ راہ مستقیم پر گامزن رہتا ہے وہی راہ مستقیم جو منزل ِ مقصود تک پہنچنے کے نزدیک ترین راستہ ہے اس راستے سے انسان تیزی سے منزل تک جاپہنچتا ہے ایک آزاد انسان کج راستوں پر اپنا سرمایہٴ وجود ضائع نہیں کرتا ہے ۔
خلاصہ یہ کہ توحید اور شر ک صرف عقیدہ نہیں ہے بلکہ پوری زندگی سے ان کا تعلق ہے سیاسی ، اقتصادی ، ثقافتی اور تمدنی زندگی ان سے مربوط ہے ۔اگر ہم زمانہ جاہلیت کے مشرک عربوں اور ابتدائے اسلام کے موحد مسلمانوں کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ان دونوں راستوں کا واضح فرق معلوم ہو جائے گا ۔وہی افراد جو کل تک جہالت ، تفرقہ ، انحطاط اور بد بختی میں ایسے گرفتار تھے کہ انھیں فقر و فساد سے آلود اپنے ماحول کے سوا کچھ خبر نہ تھی لیکن جب انھوں نے وادی توحیدی میں قدم رکھا تو انھیں ایسی وحدت ، آگہی اور توانائی میسر آئی کہ اس زمانے کی ساری متمدن دنیا ان کے زیر نگیں ہو گئی ۔
۲۔ انسان زندگی پر عدالت اور سچائی کا اثر : یہ بات جاذب نظر ہے کہ زیر بحث آیات میں موحدین کے کاموں میں سے صرف دعوت ِ عدل اور صراط مستقیم پر گامزن ہو نے کا ذکر کیا گیا ہے یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ کسی فرد یامعاشرے کی حقیقی سعادت انہی دو چیزوں میں مضمر ہے انسان کا طرز عمل صحیح ہو اس کی زندگی کا پرو گرام نہ شرقی ہو نہ غربی وہ نہ دائیں طرف منحرف ہو نہ بائیں طرف اور پھر قیام عدل کی دعوت ۔ وہ بھی وقتی نہیں بلکہ ”یاٴمر بالعدل “ کے مفہوم کے مطابق دائمی اور مسلسل ( کیونکہ ”یاٴمر “ مضارع کا صیغہ ہے جو دوام کا مفہوم دیتا ہے ) ۔
۳۔روایت پر ایک نظر : طرقِ اہل بیت  سے ایک روایت مندرجہ بالا آیات کی تفسیر کے ضمن میں آئی ہے روایت میں ہے
الذین یاٴمر بالعدل امیر الموٴمنین و الائمة (صلواة اللہ علیھم )
عدل و انصاف کی دعوت دینے والے امیر المومنین علی اور آئمہ اہل ( علیھم السلام )ہیں ( نور الثقلین،جلد۳ ص ۷۰)
بعض مفسرین نے ”من یاٴمر بالعدل“ سے حضرت حمزہ ، عثمان بن مظعون یاعمار مراد لئے ہیں اور ”ابکم “ سے ابن ابی خلف اور ابوجہل وغیرہ ۔
واضح ہے کہ یہ سب ان کے لئے واضح مصداق ہیں اور ان روایات سے یہ ظاہر نہیں ہو تا کہ ان مفہوم انہی افراد میں منحصر ہے ۔
ضمنی طور پر ان تفسیر سے یہ بات واضح ہوتی ہے ۔ آیات کی تشبیہ بتوں اور خدا کی طرف اشارہ نہیں کرتی بلکہ مشرکین اور مومنین کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔

 
 


۱۔جو تفسیر ہم نے بیان کی ہے ا سکے مطابق مذکورہ بالا مثال مومن اور کافر کےلئے ہے لیکن بعض مفسرین نے اس تشبیہ کے لئے ایک اور احتمال ذکر کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہاں مراد یہ ہے کہ بتوں کو مملوک غلام سے خدا کو اس آزاد ومومن سے تشبیہ دی جائے کہ جو صاحب نعمات ہے اور اس میں سے خرچ کرتا ہے ۔
2۔”لمح“ ”برزن”مسح“) اصل میں بجلی کے چمکنے کے معنی میں ہے بعد ازاں ایک اچکتی نگاہ ڈالنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ ضمناًتوجہ رہے کہ یہاں ”او“ ”بل“ کے معنی میں ہے ۔
سوره نحل/ آیه 75 -77
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma