ایمان کی ایک نشانی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03

ایمان کی ایک نشانی

” لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ“ لفظ ”بَرّ“ عربی زبان میں وسعت کا ہم معنیٰ ہے اسی لئے وسیع صحرا کو ”بَرّ“ (باکی فتح کے ساتھ ) کہاتا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے ان نیک کاموں کو بِر( باکی زیر کے ساتھ ) کہتے ہیں جن کا ثمرہ و نتیجہ عام اور وسیع ہو اور دوسروں تک پہنچے،”بِر“ ” خیر “ کے درمیان لغت عرب کے لحاظ سے یہ فرق ہے کہ ”بِر“وی نیک کام ہوتا ہے جو تو جہ اور قصد و اختیار کے ساتھ ہو لیکن ” خیر“ ہر قسم کی نیکی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ کسی توجہ اور التفات کے بغیر کی گئی ہو۔
مندرجہ بالا آیت میں فرمایاگیا ہے تم لوگ اس وقت ”بر“ اور نیکی کی حقیقت کو نہیں پا سکتے جب تک اس چیز میں سے راہ خدا میں خرچ نہ کرو جس سے تم محبت کرتے ہو۔
اس آیت میں لفظ ”بر“ کے متعلق مفسرین حضرات نے تفصیلی گفتگو کی ہے بعض نے اس کا معنیٰ بہشت بتا یا ہے اور بعض کے نزدیک یہ تقویٰ اور پر ہیز گاری کا ہم معنیٰ ہے جب کہ ایک زمرہٴ مفسرین نے اس سے نیک جزاٴ امر اولیٰ ہے ۔ لیکن قرآنی آیات سے مفہوم ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بر ایک وسیع معنی میں ہے جس میں تمام نیکیاں خواہ ایمان ہو یا پاک عمل شامل ہیں ، جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ۱۷۷ سے معلوم ہوتا ہے
” لَیْسَ الْبِرَّ اٴَنْ تُوَلُّوا وُجُوھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلاَئِکَةِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّینَ وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَالسَّائِلِینَ وَفِی الرِّقَابِ وَاٴَقَامَ الصَّلاَةَ وَآتَی الزَّکَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَھْدِہِمْ إِذَا عَاھَدُوا وَالصَّابِرِینَ فِی الْبَاٴْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِینَ الْبَاٴْسِ اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَاٴُوْلَئِکَ ھمْ الْمُتَّقُون۔“
یعنی ..... نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا منہ مشر ق و مغرب کی طرف پھیرلو ۔ نیک لوگ تو وہ ہیں جو اللہ ،یوم آخرت ، ملائکہ ، کتاب اور انبیاء پر ایمان لائے اور انہوں نے اس کی محبت میں رشتہ داروں ، یتیموں اور فقیروں کو ( اپنا )مال دیا اور اسی طرح مسافروں کے لئے سوال کرنے والوں کے لئے اور غلاموں کو آزاد کروانے کے لیے اپنا مال خرچ کیا، نماز قائم کی اور زکوٰة ادا کی اور جب وہ عہد کرتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں وہ فقر ، بیماری اور جنگ میں صبر کرنے والے ہیں ۔ یہی لوگ راستباز اور پر ہیز گار ہیں ۔
مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پر ور دگار ِ عالم ،روز جزاء اور انبیاء و مرسلین پر ایمان لانا، حاجتمندوں کی مدد کرنا ، نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا ، عہد پورا کرنا او رمشکلات و حوادث کا استقامت اور پا مردی سے مقابلہ کرنا یہ سب بِرّکے شعبے شمار ہوتے ہیں ۔
بنابر این حقیقی نیک لوگوں کا مقام حاصل کرنے کے لئے بہت سی شرائط ہیں ان میں سے ایک شرط ان اموال میں سے راہ خدا میں خرچ کرنا جن سے انسان کا ولی لگاوٴ ہو کیونکہ خدا کے ساتھ حقیقی عشق و محبت انسانیت و اخلاق کا احترام اس وقت ظاہر ہوتا ہے جن انسان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہو جہاں ایک طرف مال و ثروت یا مقام و منصب ہو جوکہ انسان کو اپنی طرف کھینچے ہیں اور اس کے مقابلے میں دوسروں طرف خدا، حقیقت ، انسانی ہمدردی اور نیکو کاری ہو ۔ اگر اس نے پہلی جانب سے صرف دوسری جانب کو اختیار کیا تو اس سے اس کے عشق اور لگاوٴ کا علم ہو سکتا ہے ۔

 

۹۲۔ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَیْءٍ فَإِنَّ اللهَ بِہِ عَلِیمٌ ۔
ترجمہ
۹۲۔تم ہر گز نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں ( خدا کی راہ میں ) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو او جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہ ہوگا ۔

12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma