پینتیسویں فصل نذر وعہد کے احکام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 03
چھتیسویں فصل وقف کے احکام چوتیسویں فصل کھانے پینے کی چیزوں کے احکام

سوال ۸۰۷ - رمضان المبارک کے دنوں میں تبلیغ کے لئے شیراز کے رودشت نامی گاؤں میں جانا ہوا ، وہاں پر بہت سی محرومتیوں کو دیکھا (جیسے: ۱۔ مسجد کا فقدان ۲۔مناسب راستے کا نہ ہونا ۳۔مدرسہ و اسکول کا نہ ہونا خصوصاً لڑکیوں کے لئے ۴۔کوئی ایک بھی اس ٹی ڈی (STD) کا نه هونا ۵۔ جوانوں کے لئے کھیل کی مناسب جگہ کا فقدان ۶۔اسکول اور کالجوں کے لئے علمی فضا کی ناہمواری ، دوسری طرف یہ کہ ۲۰ سے ۳۰ نفر پر مشتمل اہل بستی ایّام محرم خصوصاً پہلے عشرہ میں تقریباً ۳ سے ۴ لاکھ تومان کھانے پر خرچ کرتے تھے، اس کھانے سے غریب اور فقراء یا تو حفظ آبرو کی خاطر یا اژدہام جمعیت کی وجہ سے یا مالدار ومتمول افراد اور ان کے رشتہ داروں کے کھانے کی وجہ سے، محروم رہتے تھے ، اس کے علاوہ بہت سا کھانا بغیر اس کے کہ اس پر کسی کا ہاتھ لگاہ ہو ، پھینک دیا جاتا تھا، اس صورت میں مذکورہ گاؤں کی ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے آیا اس رقم کو جو مجلس عزا کے لئے مذکورہ شکل میں جمع کی جاتی ہے اور نعمت الٰہی کے اسراف کا سبب بنتی ہے ایک عالم دین کی نظارت میں فوق الذکر مشکلات کو برطرف کرنے اور عام المنفعة امور کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے؟

جواب: چنانچہ اگر مذکورہ نذورات، مطلقہ، امام حسین - کے لئے ہوں تو ان کو لوگوں کی مشکلات کو برطرف کرنے میں استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن اگر یہ نذورات، غذا اور اطعام سے مخصوص ہوں تو فقط ان کو اسی کام میں استعمال کیا جائے اور اگر یہ رقم ان ایام میں یا اس علاقہ میں استعمال کے قابل نہ ہوں تو آپ دوسرے علاقوں میں یا دوسرے ایام میں اس کو اطعام کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔

سوال ۸۰۸ -- میری بیٹی نوجوانی کے لطیف احساسات کی بنیاد پر عرف کے برخلاف نذر انجام دیتی ہے؛ مثلاً وہ نذر کرتی ہے کہ اگر اس کی نماز چاہے عمداً بھی قضا نہ ہو اُسی دن بغیر سحری کے روزہ رکھے گی اور دن میں چند رکعتیں مستحبی نماز پڑھے گی، قرآن کوچند بار بوسہ د ے گی اور قرآن کی کچھ آیتوں کی تلاوت کرے گی، صلوات پڑھتے وقت کاملاً حجاب میں رہے گی، اس کے علاوہ جب وہ شک کرتی ہے کہ فلاں کام کے لئے نذر کی تھی یا نہیں، تو اس خیال سے کہ شاید نذر انجام دینے میں اس سے کوتاہی نہ ہوگئی ہو، مشکوک نذروں کو بھی انجام دیتی ہے، ان نذروں کا نتیجہ اتنا افراطی ہوتا ہے کہ اس کی معمولی زندگی میں خلل کا باعث بن جاتا ہے اور کبھی کبھی تو اتنا مضحکہ خیز ہوتا ہے کہ اردگرد کے افراد اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں جو اس کی اجتماعی زندگی کے لئے خطرناک ہے، بصورت دیگر یعنی یہ کہ اگر وہ ان نذروں کو انجام نہیں دیتی تو اس کی نفسیات پر منفی اثر ہوتا ہے اور اس کو آخرت کا خوف ستانے لگتا ہے، مذکورہ وضاحت کو مدنظر رکھتے ہوئے فرمائیں کہ اس کے لئے کس حد تک نذر کا پورا کرنا ضروری ہے؟

جواب: مذکورہ نذ ر جب تک زندگی میں خلل، عسر وحرج اورتمسخر کا سبب نہ بنیں تو معتبر ہیں اور اس کے علاوہ کوئی نذر معتبر نہیں ہے ، لیکن اس قسم کی نذریں جیسے بغیر سحری کے روزہ رکھنا اشکال رکھتی ہے، اسی طرح مشکوک نذروں کے وفا کرنے پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، البتہ یہ تمام احکام اس وقت لاگو ہوں گے جب نذر کا صیغہ صحیح طریقہ سے پڑھا گیا ہو اور باپ کی اذیت کا باعث بھی نہ بنے اس کے علاوہ دیگر صورتوں میں نذر کو انجام دینا لازم نہیں ہے۔

سوال ۸۰۹ -- مہربانی کرکے مندرجہ سوالات کے جواب عنایت فرمائیے؟
الف) اگر کوئی شخص اپنی نذر کے انجام دینے پر قادر نہ ہو، کیا ایسا شخص گناہ گا ر ہے؟
ب) نذر سے پھر جانا بغیر کسی وجہ کے کیساہے؟
ج) کیا نذر میں تاخیر جائز ہے؟

جواب: اگر نذر مطلق ہو تو اس میں تاخیر جائز نہیں ہے اور اگر بغیر عذر کے نذر کی مخالفت کی جائے کفارہ واجب ہوجاتا ہے اور اس کا کفارہ ماہ رمضان کے کفارہ کے مانند ہے۔

سوال ۸۱۰ - ایک شخص نے اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں (چاہے بالغ ہونے سے پہلے یا بالغ ہونے کے بعد) بہت نذریں مانی تھیں، اب وہ نذروں کی تعداد کو بھی بھول گیا اور ان کے موضوع کو بھی، ایسے شخص کی کیا تکلیف ہے؟

جواب: بلوغ سے پہلے والی نذروں پر عمل کرنا لازم نہیں ہے، ایسے ہی دل سے کی گئی نذروں جن میں زبان سے صیغہ نہ پڑھا گیا ہو ان پر عمل بھی عمل کرنا واجب نہیں ہے، ہاں وہ نذریں جو بلوغ کے بعد مانی گئیں اور زبان سے صیغہ نذر کو بھی ادا کیا گیا ہو ان پر عمل کرنا ہوگا اور شک کی صورت میں جتنی نذریں یقینی ہوں ان کو انجام دے اور اگر نذر کا مورد مشکوک ہو اور احتیاط بھی ممکن نہ ہو تو قرعہ ڈالے اور اس کے مطابق عمل کرے۔

سوال ۸۱۱ -- ایک سال سے زیادہ گزرچکا میں نے اپنی حاجت برآوری کے لئے ایک بھیڑ یا اس کے معادل پیسہ، عاشور ا کے پروگرام کے لئے نذر کی تھی اور ابھی تک میری حاجت کامل طریقہ سے پوری نہیں ہوئی، لہٰذا اس امر میں ذیل میں دیئے گئے سوالوں کے جواب ارشاد فرمائیں:
۱۔ مجھے صحیح طرح سے یا د نہیں کہ نذرکر تے وقت میں نے بھیڑ، یا اس کے پیسے کو کسی خاص عزا خانہ میں دینے کا قصد کیا تھا یا نہیں؟ کیا اس بھیڑ بکری کی رقم کو ۲ یا ۳ عزاخانوں میں تقسیم کرسکتا ہوں؟

جواب: نذر کرتے وقت اگر کسی خاص عزاخانے کو مدنظر نہیں رکھا تھا تو آپ اس کی رقم کو چند عزاخانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

۲۔ نذر کرتے وقت بھیڑ کے سن اور وزن کو معین نہیں کیا تھا کیا حد متوسط کا لحاظ کیا جاسکتا ہے؟

جواب: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۳۔ جب تک میری مراد نہ آئے تو کیا میں نذر کی مقدار، نوع اور نذر کے ادا کرنے کے مقام کو بدل سکتا ہوں؟

جواب: اگر آپ نے نذر کا صیغہ پڑھا تھا تو جائز نہیں ہے۔

۴۔ مراد پوری ہونے سے پہلے نذر کو ادا کرسکتا ہوں؟

جواب: واجب نہیں ہے۔

سوال ۸۱۲ -- اس صورت میں جب کہ بھیڑ کی نقد قیمت کسی خاص امام باڑے میں دوں تو کیا ان سے یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ حتماً آپ اس پیسے سے بھیڑ خریدیں اور اس کا گوشت عزداران حسینی کو مجلس عزاء میں کھلائیں؟

جواب: جی ہاں، اس مطلب کی یاد دہانی کرانا آپ پر لازم ہے ۔

چھتیسویں فصل وقف کے احکام چوتیسویں فصل کھانے پینے کی چیزوں کے احکام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma