اکتالیسویں فصل وصیت کے احکام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 03
میراث کا دوسرا طبقہ:چالیسویں فصل شہادت کے احکام

سوال ۸۶۷ -- ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کی بیوی اس کے مرنے کے بعد شادی نہ کرے اور اگر شادی کرے گی تو ایک معین گھر میں رہنے کا حق نہیں رکھتی، شوہر کے مرنے کے بعد بیوی نے متعہ کرلیا۔
اوّلاً: کیا یہ شرط صحیح ہے؟
ثانیاً: کیا متعہ بھی مذکورہ وصیت میں شامل ہے؟

جواب: اگر متعہ کم مدت کے لئے تھا اس وصیت میں شامل نہیں ہوگا، لیکن اگر لمبی مدت کے لئے تھا، یا مُکرّر ہونے کی وجہ سے، طولانی مدت کے لئے ہوگیا تھا ، تو وصیت میں شامل ہوگا نیز مذکورہ وصیت عورت کے میراث کے حق میں کوئی اثر نہیں رکھتی، لیکن اگر وصیت میں ، اس کے لئے حق الارث سے زیادہ کہا گیا تھا تو اس اضافی چیز سے استفادہ کرنا وصیت پر عمل کرنے کامشروط ہوگا ۔

سوال ۸۶۸ -- کیا تقسیم میراث کی وصیت موت سے پہلے جائز ہے؟ مثلاً زید وصیت کرے کہ اس کے مرنے کے بعد فلاں باغ فلاں بیٹے اور فلاں گھر فلاں لڑکی کا ہوگا، کیا ایسی وصیت نافذ ہے؟

جواب: ایسی وصیت باطل ہے ۔

سوال ۸۶۹ - ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کے باغ کی آمدنی سے بالغ ہونے کے بعد (سے مرنے تک) ہر سال کے لئے نماز وروزہ کی خریداری کی جائے، ابھی تک جتنے سال گذرے ہیں اس پر عمل ہورہا ہے(۱) کیا تکرار عبادت لازم ہے یا اتنی مقدار پر اکتفا کی جائے؟

جواب: اتنی ہی مقدار پر قناعت کی جائے گی اور بقیہ مال وارثین سے متعلق ہے؛ مگر یہ کہ وصیت کی ہو کہ بقیہ مال کو کار خیر میں صرف کیا جائے۔
۱۔ مثلاًتکلیف کے بعد وہ دس سال زندہ رہا، دس سال تک اس کی وصیت کے مطابق ہر سال نماز وروزہ کی خریداری ہوتی رہی یعنی اجارہ پر نماز وروزہ انجام دلائے گئے(مترجم)

سوال ۸۷۰ -- کسی نے اپنے ثلث (۳/۱)مال میں وصیت کی اور کار حادثہ میں جان بہ حق ہوگیا، میت کے وصی نے دیت کا دعوا کردیا اور دیت کی بابت قاتل سے ایک چیک وصول کرلیا، اس واقعہ کے بعد بعض وارثین نے رضایت دیدی اور بعض نے اپنے حصے کی دیت وصول کرلی، میت کے حصے کا حکم اور وصی کا وظیفہ کیا ہے؟

جواب: فرض مسئلہ میں ، ثلث مال بھی دیت سے متعلق ہے ۔

سوال ۸۷۱ -- ایک شخص نے اپنے انگور کے باغ کے آدھے حصے کو ثلث کے عنوان سے قرار دیا اور اپنے وصیت نامہ میں تحریر کیا کہ باغ کے اخراجات کم کرنے کے بعد باقی آمدنی کو وصی، موصی کی طرف سے خیرات کردے، اب ایک مدت گذر جانے کے بعد باغ کی آمدنی اور منافعہ باغ کے اخراجات کے لئے بھی کفایت نہیں کرتا، کیا وہ شخص جو باغ کا ذمہ دار ہے باغ کو نقد یا قسطوں میں بیچ کر باغ کے پیسے کو موصی کی طرف سے خیرات کرسکتا ہے؟

جواب: اس کو بیچ دینا چاہیے اور دوسری جگہ پر کوئی جائداد ، چاہے چھوٹی ہی ہو لیکن نفع بخش ہو، خرید کر وقف کردے اور اس کے منافع کو موارد وصیت میں خرچ کرے۔

سوال ۸۷۲ - ایک وصیت نامہ کے متن میں آیا ہے: ”چنانچہ موصی ارحام (خونی رشتہ دار) فقیر اور پریشان حال ہوں تو پہلے ثلث مال میں سے ان کو دیا جائے اور بعد باقی کو میں عزاداری میں خرچ کیا جائے اور چنانچہ ارحام سادات ہوں تو وہ مقدم ہیں“ شایان ذکر ہے کہ حالیہ وصی کے یہاں جو موصی کا پوتا ہے اپنے صلب سے کوئی اولاد نہیں ہے اور اسے گذشتہ زمانے میں ایک لڑکی کو گود لیا اور اس کو اپنی بہن کا دودھ پلایا تاکہ وہ اس کی محرم ہوجائے اور گود لی ہوئی لڑکی کا شناختی کادڑ بھی اپنی اولاد کے عنوان سے بنوایا ہے (وصی کے اہل وعیال غیر سید ہیں) کیا گودلی ہوئی لڑکی اور اس کی اولاد ، موصی کے ارحام میں شمار ہوں گے؟

جواب: گود لی ہوئی اولاد موصی کی نسل میں شمار نہیں ہوگی اور وصیت نامہ ان کے شامل حال نہیں ہوگا۔

سوال ۸۷۳ - ۱۴/ سال پہلے میرے والد جاں بحق ہوگئے تھے، ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں، مرنے سے کئی سال پہلے سرکاری کاغذات کے دفتر(تحصیل) میں وصیت کی اور انھوں نے اپنی دائمی زوجہ (جواس وقت ۸۸ سال سن رکھتی ہے)اور اس کے بڑے بیٹے سید جواد (یعنی مجھ) کو موصی کی اپنی دیگر چھوٹی اولاد کو ادارہ کرنے کے سلسلے میں ، موصی بھی اپنے مرنے کے بعد ، وصی قرار دیا اور وصیت میں ذکر کیا کہ بڑے ہونے کے بعد دوسرے بھائی وصایت میں شریک رہیں گے ، جس تاریخ میں یہ وصیت نامہ لکھا گیاتھا اس وقت ہماری چھوٹی بہن پیدا بھی نہیں ہوئی تھی اور وہ پیدائشی کم ذہنی کا شکار تھی اور اب بھی ہے ، اب جبکہ وہ اکتالیس (۴۱) سال کی ہے کیا اس کے بھائی اپنی چھوٹی بہن کے لئے اب بھی قیم ہوسکتے ہیں؟ اور کیا اب بھی یہ وصیت نامہ اپنی حالت پر باقی ہے شایان ذکر ہے کہ والد کے مرنے سے اب تک ان چودہ سالوں کی مدت میں اس کے بھائیوں نے اس کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔

جواب: اس صورت میں جب وصیت نامہ مطلق ہو اور اس میں کوئی قید وشرط نہ ہو تو اس اولاد کی قیمومیت کہ جو عقل کافی سے بے بہرہ ہیں ان کے شامل حال ہوگا

سوال ۸۷۴ - ایک شخص نے بہ شکل ذیل وصیت کی :”خداوندعالم کے اوپر توکل اور ائمہ اطہار ٪ سے توسل کے ساتھ صحت نفس اور سلامت کامل کی حالت میں شورای اسلامی اور شہر کی شہرداری کی درخواست پر اپنی اور اپنے اہل خانہ کی قلبی رضایت کے ساتھ وصیت کرتا ہوں کہ فلاں صاحب کی ہدیہ شدہ زمین میں مومن ومومنات کے قبرستان کی خاطر ایک زیارتگاہ اپنے خرچ سے تعمیر کراؤں اور جب خداوندتبارک وتعالیٰ میری موت کا وقت مقرر فرمائے، اس زمین میں دفن کیا جاؤں، وہ تمام نذورات جو لوگوں کی طرف سے دی جائیں ان میں سے پچاس فیصد میری اولاد کا حصہ ہوگا اور پچاس فیصد امور ثقافتی ، تعمیری، مذہبی، اجتماعی، تعلیمی اور قبرستان اور زیارتگاہ میں سبزہ لگانے کے لئے شہرداری کے اختیار میں دیا جائے ضمناً ایک چار سو میٹر مربع زمین میرے ایک بیٹے کو زیارتگاہ کے خادم کے عنوان سے گھر بنانے کے لئے دی جائے تاکہ اپنے ذاتی خرچ سے اس کو بنانے کا اقدام کرے“
کیا مذکورہ وصیت نامہ معتبر ہے؟

جواب: یہ وصیت نامہ کوئی اعتبار نہیں رکھتا اور ایسی زیارتگاہیں بنانے سے پرہیز کیا جائے۔

 

میراث کا دوسرا طبقہ:چالیسویں فصل شہادت کے احکام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma