مختصر جواب:
مفصل جواب:
اہل تحقیق کیلئے لفظ مولی کے معنی ”اولی“ کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے اور بالفرض اگر ہم قبول کرلیں کہ لفظ مولی مشترک لفظی ہے اور یہ معنی ، لفظ مولی کے معانی میں سے ایک ہے تو ہم کہتے ہیں : حدیث میں متصل اور منفصل قرینے موجود ہیں جو دوسرے معانی کی نفی کرتے ہیں ، یہاں پر ہم ان قرینوں کو بیان کریں گے :
پہلا قرینہ : حدیث کے شروع میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : ”الست اولی بکم من انفسکم“ ۔ کیا میں تم پر تم سے زیادہ سزاوار نہیں ہوں، یعنی کیا میں تم پر ولایت مطلقہ نہیں رکھتا؟ یا اسی کی طرح دوسرے الفاظ جو اس معنی پر دلالت کرتے ہیں ،اس کے بعد آنحضرت (ص) نے اس حدیث کو اپنی پہلی بات سے متصل کرتے ہوئے فرمایا : ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ ۔ جس کا میں مولی ہوں اس کے یہ علی مولی ہیں۔ اس مقدمہ کو بہت سے شیعہ اور اہل سنت علماء نے نقل کیا ہے :
اہل سنت کے ائمہ اور حفاظ جنہوں نے اس کو نقل کیا ہے ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ احمد بن حنبل، ۲۔ ابن ماجہ ، ۳۔ نسائی ، ۴۔ طبری، ۵۔ ترمذی ، ۶۔ سیوطی۔
یہ مقدمہ اس حدیث کا صحیح اور مسلم الثبوت حصہ ہے جس کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے اور اگر پیغمبر خدا نے اس کلام کے علاوہ کسی اور کلام کا ارادہ کیا ہوتا تو یقینا ان کا کلام (جب کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ان کلام ہر طرح کی لغزش سے دور ہے) خراب ہوجاتا اور اس میں کوئی بلاغت باقی نہیں رہتی ، جب کہ آنحضرت (ص) ”افصح البلغاء “ اور ”ابلغ من نطق بالضاد“ (تمام بلیغ انسانوں سے فصیح تر اور تمام ضاد کا تلفظ کرنے والوں سے بلیغ ) ہیں۔ پس ہماراعقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرم کے کلام کے تمام اجزاء چونکہ منبع وحی سے آپ کی زبان پر جاری ہوتے ہیں ، ایک دوسرے سے مرتبط ہیں اور ہمارے لئے کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں مقدمہ کے معنی ذی المقدمہ سے متحد اور یکساں ہیں ( اور چونکہ پیغمبر اکرم (ص) کے کلام کے آغاز میں مولا کے معنی اولی بہ شی ہیں لہذا بعد والے کلام میں بھی یہی معنی مراد ہیں) ۔
اور تذکرة المطالب میں سبط بن جوزی حنفی کاقول کامل طور سے واضح ہوجاتا ہے ۔ انہوں نے لفظ مولی کے لئے دس معنی بیان کئے ہیں اور دسویں معنی ”اولی“ ذکرکئے ہیں اورکہا ہے :
حدیث سے مراد مخصوص اطاعت ہے اس بناء پر دسویں معنی جو کہ ”اولی“ کے معنی میں ہے ، معین ہوتے ہیں اور حدیث کے معنی یہ ہیں : میں جس پر اس سے زیادہ سزاوار ہوں یہ علی بھی اس پر اس سے زیادہ سزاوار ہیں۔
دوسرا قرینہ : حدیث کے آخر میں فرمایا ہے : ”اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ “ ۔خدایا اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس سے دشمنی کر جو علی سے دشمنی کرے ۔ بعض دوسری حدیث میں یہ جملہ اس طرح بھی ذکر ہوا ہے : ”وانصر من نصرہ و اخذل من خذلہ“ ۔ اس کی مدد کرنے والے کی مدد اور اس کو ذلیل و خوار کرنے والے کو ذلیل وخوار کر۔ ہم نے اس سے پہلے اس کے راویوں کو ذکر کیا تھا ۔
تیسرا قرینہ :
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا قول : ”یا ایھا الناس بم تشھدون ؟ قالوا : نشھد ان لا الہ الا اللہ ۔ قال : ثم مہ ؟ قالوا : و ان محمدا عبدہ و رسولہ ۔قال : فمن ولیکم ؟ قالوا : اللہ و رسولہ مولانا “۔ اے لوگو ! تم کس چیز کی شہادت دیتے ہو ؟ انہوں نے کہا : لاالہ الا اللہ کی شہادت دیتے ہیں ۔ فرمایا اس کے بعد کس چیز کی گواہی دیتے ہو ، انہوں نے کہا : محمد ، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ پھرآپ نے فرمایا : تمہارا ولی کون ہے ؟ انہوں نے کہا : خدا اور اس کا رسول ہمارا مولی ہے ۔ اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ علی (علیہ السلام) کے بازو پر رکھا اوران کو بلند کرکے فرمایا : ”من یکن اللہ و رسولہ مولاہ فان ھذا مولاہ “۔ جس کا خدا اور اس کا رسول مولی ہے اس کا یہ علی مولی ہے ۔ اس عبارت کو جریر نے نقل کیا ہے (۷) ۔
ولایت کا توحید اور رسالت کی شہادت کے ساتھ بیان ہونے اور اس کے بعد خدا اور رسول کی ولایت مطلقہ کو ذکر کرنے میں کوئی اور بات ممکن ہی نہیں ہے مگر یہ کہ امامت کے معنی لوگوں کی جانوں پر ولایت کے ملازم ہو (جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ، مومنین سے زیادہ ان پر حق رکھتے ہیں : ”النبی اولی بالمومنین من انفسھم“۔ علی (علیہ السلام) بھی مومنین پر ان سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔
چوتھا قرینہ
اس حدیث کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول : ”اللہ اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة و رضا الرب برسالتی والولایة لعلی بن ابی طالب “۔ دین کے کامل ہونے،نعمتوں کی تکمیل ، پیغام رسانی سے خدا کی خشنودی ، میری رسالت اور علی کی ولایت پر اللہ اکبر۔
آپ کی نظر میں ایسی امامت کے علاوہ جو تمام کاموں کو ختم کرنے والی ، دین کی نشر واشاعت کو مکمل ،رسالت کی بنیادوں کو ثابت و محکم ،دین کو کامل ، نعمتوں کو تمام اور خدا کو خوش کرنے والی ہو ، اور کون امامت ہوسکتی ہے ، پس اس صورت میں جو ان تمام ذمہ داریوں کو پورا کرنے والا ہو اور لوگوں پر ان سے زیادہ حق رکھتا ہو وہ امام ہے ۔
پانچواں قرینہ
ولایت کو بیان کرنے سے پہلے آنحضرت (ص) کا قول : ”کانی دعیت فاجبت“۔ گویا مجھے بلایا جارہا ہے اورمیں نے قبول کرلیا ہے ۔ ، یا ”انہ یوشک ان ادعی فاجیب“۔ نزدیک ہے کہ مجھے بلایا جائے اور میں اس کو قبول کرلوں۔ یا ”الا و انی اوشک ان افارقکم“ ۔ آگاہ ہوجاؤ کہ نزدیک ہے میں تم سے جدا ہوجاؤں۔ یا ”یوشک ان یاتی رسول ربی فاجیب“۔ نزدیک ہے کہ خدا کا فرستادہ آئے اور میں اس کی دعوت کو قبول کرلوں۔ اس قول کو حفاظ حدیث نے بہت مرتبہ ذکر کیا ہے (۸) ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا یہ قول ہمیں بتاتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی تبلیغ کا کوئی اہم کام باقی رہ گیا تھا جس کی وجہ سے آنحضرت (ص) پریشان تھے کہ شاید اس کو پہنچانے سے پہلے موت آجائے (اور اس کی تبلیغ کا وقت نہ ملے) اوررسالت ناتمام رہ جائے ۔
مسلم کے نقل کے مطابق (۹) ان پریشانیوں اوراہتمام کے بعد امیرالمومنین کی ولایت اور آپ کی پاک و پاکیزہ عترت کی ولایت کے علاوہ اور کسی چیز کو ابلاغ نہیں کیا ۔ اور کیا یہ مہم امر جو کہ اس ولایت پر منطبق ہے ،امامت کے اس معنی کے علاوہ کسی اور چیز پر دلالت کرتا ہے جو کہ بہت سی صحاح کی کتابوں میں بیان ہوئی ہے ؟! کیااس ولایت کامالک لوگوں پر ان سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟!
چھٹا قرینہ : علی (علیہ السلام) کی ولایت کو بیان کرنے کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا یہ کلام : ” ھنئونی ہنئونی ان اللہ تعالی خصنی بالنبوة و خص اھل بیتی بالامامة“ (۱۰) ۔ مجھے مبارک باد دو، مجھے مبارکباد دو، کیونکہ خدائے تعالی نے مجھے نبوت اور میرے اہل بیت کو امامت عطاء کی ہے ۔
یہ عبارت واضح طور پر بتارہی ہے کہ امامت ، اہل بیت سے مخصوص ہے اور سب سے پہلے امام حضرت علی (علیہ السلام) ہیں جن کو اس وقت امام بنایا گیا ۔ نیز مبارکباد دینا، بیعت کرانا، اورمحفل قائم کرنا جو تین دن تک چلتی رہی (جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے )(۱۱) ، خلافت و ولایت کے علاوہ کسی اور معنی سے سازگار نہیں ہے اور اسی وجہ سے شیخین (یعنی ابوبکر اور عمر) نے جس وقت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے ملاقات کی تو آپ کو مبارکبادی دی اور یہ بات پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کلام میں لفظ ”مولی“ کے معنی کو بیان کررہی ہے ، پس جو بھی مولی کی صفت سے آراستہ ہے وہ شخص لوگوں پر ان سے زیادہ حق رکھتا ہے ۔
ساتواں قرینہ : ولایت کو بیان کرنے کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا یہ کلام : ”فلیبلغ الشاھد الغائب“۔ جو لوگ حاضر ہیں وہ غایبین تک یہ بات پہنچا دیں، یہ روایت پہلے بیان ہوچکی ہے (۱۲) ۔
کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) محبت و موالات اور مدد جیسے امور کو جو کہ لوکوں کے درمیان پہلے سے رائج ہیں اور کتاب و سنت کے ذریعہ سب کچھ پہلے سے واضح ہوچکا ہے، اس طرح سے ابلاغ کریں گے کہ جو لوگ موجود نہیں ہیں ان تک بھی یہ بات پہنچا دینا اور اس قدر اس بات کے لئے اہتمام کیا ا ور اس کام کی اس قدر تاکید کی ؟ میںنہیں سمجھتا کہ آپ کی ہلکی سے ہلکی رائے بھی اس راستہ کو قبول کرے ، کیونکہ بے شک آپ کہیں گے : یقینا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے سامنے اہم مسئلہ تھا جس کو بیان کرنے کا موقع نہیں سمجھ رہے تھے اور جو لوگ اس اجتماع میں موجود تھے وہ اس سے آگاہ نہیں تھے اور یہ اہم مسئلہ ، امامت کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا جس کے ذریعہ دین کامل، نعمت تمام اور پروردگار عالم کی خشنودی حاصل ہوگئی۔
اور اس مجمع میں موجود لوگوں نے بھی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کلام سے اس کے علاوہ کوئی دوسرا مطلب اخذ نہیں کیا اور اس اجتماع میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے کوئی دوسرا کلام بھی نہیں سنا ، تاکہ یہ کہا جائے کہ آنحضرت (ص) نے اس کا حکم دیا ہے اور یہ معنی صرف اولی کے معنی سے مناسبت رکھتا ہے ۔
آٹھواں قرینہ : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ابوسعید خدری اور جابر (۱۳) کی روایت کی بنیاد پر ولایت کا پیغام بیان کرنے کے بعد فرمایا : ”اللہ اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة و رضا الرب برسالتی والولایة لعلی بن ابی طالب بعدی “۔ دین کے کامل ہونے،نعمتوں کی تکمیل ، پیغام رسانی سے خدا کی خشنودی ، میری رسالت اور علی کی ولایت پر اللہ اکبر۔اور وہب (۱۴) کے لفظ میں آیا ہے : ”انہ ولیکم بعدی“ ۔ یقینا وہ میرے بعد تمہارے ولی ہیں ۔ اور حضرت علی (علیہ السلام) نے جو پیغمبر سے روایت کی ہے جو کہ پہلے گذر گئی ہے(۱۵) ، اس میں بیان ہوا ہے ”ولی کل مومن بعدی“ ، میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں ۔
نیز ترمذی ، ا حمد ، نسائی، ابن ابی شیبہ ، طبری اور دوسرے حفاظ نے صحیح سند کے ساتھ اس کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیا ہے (۱۶) : ” ان علیا منی و انا منہ و ھو ولی کل مومن بعدی“۔ یقینا علی مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کے ولی ہیں، دوسری روایت میں ذکر ہوا ہے : ”ھو ولیکم بعدی“۔ وہ میرے بعد تمہارے ولی ہیں۔
ابونعیم نے ”حلیة الاولیاء “ (۱۷) میں ا وردوسرے علماء (۱۸) نے صحیح سند کے ساتھ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیا ہے : ” من سرہ ان یحیی حیاتی، و یموت مماتی، و یسکن جنة عدن غرسھا ربی ، فلیوال علیا من بعدی، و لیقتد بالائمة من بعدی، فانھم عترتی خلقوا من طینتی “ ۔ جو بھی چاہتا ہے کہ میری طرح زندگی بسر کرے اور میری طرح دنیا سے جائے اور جنت عدن جس کو پروردگار نے خود بنایا ہے ، زندگی بسر کرے ، وہ میرے بعد علی کو دوست رکھے اور ان کے بعد آنے والے اماموں کی اقتداء کرے ،کیونکہ یہ میری عترت ہیں اور میری طینت سے خلق ہوئے ہیں۔
یقینا یہ تعبیرات ہمیں بتاتی ہیں کہ امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی ثابت شدہ ولایت ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نبوت پر مترتب ہے اور صاحب رسالت کے مقام (ان دونوں کے درمیان مراتب کے فرق کا خیال رکھتے ہوئے ،اولویت اور اولیت کے اعتبار سے)کے برابر ہے ۔ لفظ ”بعدی“ سے چاہے زمانہ کی دور مراد ہو اورچاہے مرتبہ کی دوری مراد ہو ۔ اس لحاظ سے ممکن نہیں ہے کہ اس صورت میں لفظ مولی سے لوگوں کے تمام کاموں میں اولویت کے علاوہ دوسرے معنی سمجھے جائیں، کیونکہ اگر لفظ مولی سے محبت و مدد کے معنی مراد لیے جائیں تو اس (لفظ بعدی کی) قید سے حدیث کے معنی بدل جائیں گے اورحضرت علی (علیہ السلام) کے افتخار کے بجائے عیب شمار ہوں گے (کیونکہ حدیث کے معنی اس طرح ہوجائیںگے میرے بعد ان سے محبت کرنا اور ان کی مدد کرنا،میری حیات میں محبت و مدد نہ کرنا) ۔
نواں قرینہ : ولایت کو ابلاغ کرنے کے بعد پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا یہ کلام : ”اللھم انت شھید علیھم انی قد بلغت و نصحت “ ۔ خدایا تو خود ان لوگوں پر گواہ ہے کہ میں نے تیرے حکم کو پہنچا دیا اور ضروری سفارش بھی کردی ۔ امت کی تبلیغ اور سفارش پر خدا کو گواہ بنانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو مسئلہ آج بیان کیا ہے وہ نیا مسئلہ ہے جس کو آج تک نہیں پہنچایا تھا ، اس کے علاوہ مولی کے تمام معانی پر جیسے محبت اور مدد کرنا جو کہ لوگوں کے درمیان رائج تھے ، شاہد اور گواہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ، مگر یہ کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے متعلق شاہد اور گواہ بنانا اسی صورت میں ٹھیک ہے جس کو ہم نے بیان کیا ہے ۔
دسواں قرینہ : مذکورہ حدیث(۱۹) کو بیان کرنے سے پہلے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا یہ کلام : ”ان اللہ ارسلنی برسالة ضاق بھا صدری و ظننت ان الناس مکذبی فاوعدنی لا بلغھا او لیعذبنی“ ۔ یقینا خداوند عالم نے مجھے ایسا پیغام پہنچانے کے لئے مامور کیا جس سے میرا سینہ تنگ ہوگیا تھا (اورمیں اس کی سنگینی کا بوجھ احساس کررہا تھا) اور میںگمان کرتاتھا (سمجھتا تھا ) کہ لوگ مجھے جھٹلائیںگے اور خدا نے مجھے ڈرایا کہ یا میں اس کو پہنچاؤں ورنہ مجھ پر عذاب کیا جائے گا ۔
ان الفاظ کے ساتھ بھی یہ حدیث وارد ہوئی ہے (۲۰) ۔ ”ان اللہ بعثنی برسالة ، فضقت بھا ذرعا (۲۱) و عرفت ان الناس مکذبی، فوعدنی لابلغن او لیعذبنی“ ۔ خداوند عالم نے مجھے ایسے پیغام کو پہنچانے کا حکم دیا جس کو انجام دینے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی (میرا سینہ تنگ ہوگیا اور مجھے کوئی راستہ نظر نہیں آیا) اورمیں سمجھ گیا کہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے ، پس خداوند عالم نے مجھے ڈرایا کہ یا اس پیغام کو پہنچا دو یا پھر عذاب کے لئے تیار ہوجاؤ۔
نیز ان الفاظ کے ساتھ بھی یہ حدیث وارد ہوئی ہے (۲۲) : ”انی راجعت ربی خشیة طعن اھل النفاق و مکذبیھم فاوعدنی لا بلغھا او لیعذبنی “ ۔ یقینا میں نے اپنے پروردگار کی طرف مراجعہ کیااس ڈر کی وجہ سے اہل نفاق میں میری تکذیب نہ کریں ،پس خداوند عالم نے مجھے ڈرایا، کہ یا اس کی تبلیغ کروں ا وراسے لوگوں تک پہنچاؤں یا پھر عذاب کیلئے تیار ہوجاؤں۔
یہ تمام عبارتیں ایک بہت بڑی خبر کو پہنچا رہی ہیں جس کے اعلان کرنے میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) منافقین کی خیانت اورتکذیب سے ڈر رہے تھے اور اس بات سے ڈرر ہے تھے کہ وہ کہیں گے : یہ اپنے چچا زاد بھائی کی طرفداری کررہے ہیں اور یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ مقام ،امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے مخصوص تھی اور محبت و مدد کرنے سے متعلق نہیں ہے جس میں تمام مسلمان حضرت علی (علیہ السلام) کے ساتھ اس میں شریک ہیں اور یہ ”اولی بہ امر ہونے اوران کے ساتھ رہنے کے معنی میں نہیں ہے (۲۳) ۔
پہلا قرینہ : حدیث کے شروع میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : ”الست اولی بکم من انفسکم“ ۔ کیا میں تم پر تم سے زیادہ سزاوار نہیں ہوں، یعنی کیا میں تم پر ولایت مطلقہ نہیں رکھتا؟ یا اسی کی طرح دوسرے الفاظ جو اس معنی پر دلالت کرتے ہیں ،اس کے بعد آنحضرت (ص) نے اس حدیث کو اپنی پہلی بات سے متصل کرتے ہوئے فرمایا : ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ ۔ جس کا میں مولی ہوں اس کے یہ علی مولی ہیں۔ اس مقدمہ کو بہت سے شیعہ اور اہل سنت علماء نے نقل کیا ہے :
اہل سنت کے ائمہ اور حفاظ جنہوں نے اس کو نقل کیا ہے ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ احمد بن حنبل، ۲۔ ابن ماجہ ، ۳۔ نسائی ، ۴۔ طبری، ۵۔ ترمذی ، ۶۔ سیوطی۔
یہ مقدمہ اس حدیث کا صحیح اور مسلم الثبوت حصہ ہے جس کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے اور اگر پیغمبر خدا نے اس کلام کے علاوہ کسی اور کلام کا ارادہ کیا ہوتا تو یقینا ان کا کلام (جب کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ان کلام ہر طرح کی لغزش سے دور ہے) خراب ہوجاتا اور اس میں کوئی بلاغت باقی نہیں رہتی ، جب کہ آنحضرت (ص) ”افصح البلغاء “ اور ”ابلغ من نطق بالضاد“ (تمام بلیغ انسانوں سے فصیح تر اور تمام ضاد کا تلفظ کرنے والوں سے بلیغ ) ہیں۔ پس ہماراعقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرم کے کلام کے تمام اجزاء چونکہ منبع وحی سے آپ کی زبان پر جاری ہوتے ہیں ، ایک دوسرے سے مرتبط ہیں اور ہمارے لئے کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں مقدمہ کے معنی ذی المقدمہ سے متحد اور یکساں ہیں ( اور چونکہ پیغمبر اکرم (ص) کے کلام کے آغاز میں مولا کے معنی اولی بہ شی ہیں لہذا بعد والے کلام میں بھی یہی معنی مراد ہیں) ۔
اور تذکرة المطالب میں سبط بن جوزی حنفی کاقول کامل طور سے واضح ہوجاتا ہے ۔ انہوں نے لفظ مولی کے لئے دس معنی بیان کئے ہیں اور دسویں معنی ”اولی“ ذکرکئے ہیں اورکہا ہے :
حدیث سے مراد مخصوص اطاعت ہے اس بناء پر دسویں معنی جو کہ ”اولی“ کے معنی میں ہے ، معین ہوتے ہیں اور حدیث کے معنی یہ ہیں : میں جس پر اس سے زیادہ سزاوار ہوں یہ علی بھی اس پر اس سے زیادہ سزاوار ہیں۔
دوسرا قرینہ : حدیث کے آخر میں فرمایا ہے : ”اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ “ ۔خدایا اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس سے دشمنی کر جو علی سے دشمنی کرے ۔ بعض دوسری حدیث میں یہ جملہ اس طرح بھی ذکر ہوا ہے : ”وانصر من نصرہ و اخذل من خذلہ“ ۔ اس کی مدد کرنے والے کی مدد اور اس کو ذلیل و خوار کرنے والے کو ذلیل وخوار کر۔ ہم نے اس سے پہلے اس کے راویوں کو ذکر کیا تھا ۔
تیسرا قرینہ :
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا قول : ”یا ایھا الناس بم تشھدون ؟ قالوا : نشھد ان لا الہ الا اللہ ۔ قال : ثم مہ ؟ قالوا : و ان محمدا عبدہ و رسولہ ۔قال : فمن ولیکم ؟ قالوا : اللہ و رسولہ مولانا “۔ اے لوگو ! تم کس چیز کی شہادت دیتے ہو ؟ انہوں نے کہا : لاالہ الا اللہ کی شہادت دیتے ہیں ۔ فرمایا اس کے بعد کس چیز کی گواہی دیتے ہو ، انہوں نے کہا : محمد ، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ پھرآپ نے فرمایا : تمہارا ولی کون ہے ؟ انہوں نے کہا : خدا اور اس کا رسول ہمارا مولی ہے ۔ اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ علی (علیہ السلام) کے بازو پر رکھا اوران کو بلند کرکے فرمایا : ”من یکن اللہ و رسولہ مولاہ فان ھذا مولاہ “۔ جس کا خدا اور اس کا رسول مولی ہے اس کا یہ علی مولی ہے ۔ اس عبارت کو جریر نے نقل کیا ہے (۷) ۔
ولایت کا توحید اور رسالت کی شہادت کے ساتھ بیان ہونے اور اس کے بعد خدا اور رسول کی ولایت مطلقہ کو ذکر کرنے میں کوئی اور بات ممکن ہی نہیں ہے مگر یہ کہ امامت کے معنی لوگوں کی جانوں پر ولایت کے ملازم ہو (جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ، مومنین سے زیادہ ان پر حق رکھتے ہیں : ”النبی اولی بالمومنین من انفسھم“۔ علی (علیہ السلام) بھی مومنین پر ان سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔
چوتھا قرینہ
اس حدیث کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول : ”اللہ اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة و رضا الرب برسالتی والولایة لعلی بن ابی طالب “۔ دین کے کامل ہونے،نعمتوں کی تکمیل ، پیغام رسانی سے خدا کی خشنودی ، میری رسالت اور علی کی ولایت پر اللہ اکبر۔
آپ کی نظر میں ایسی امامت کے علاوہ جو تمام کاموں کو ختم کرنے والی ، دین کی نشر واشاعت کو مکمل ،رسالت کی بنیادوں کو ثابت و محکم ،دین کو کامل ، نعمتوں کو تمام اور خدا کو خوش کرنے والی ہو ، اور کون امامت ہوسکتی ہے ، پس اس صورت میں جو ان تمام ذمہ داریوں کو پورا کرنے والا ہو اور لوگوں پر ان سے زیادہ حق رکھتا ہو وہ امام ہے ۔
پانچواں قرینہ
ولایت کو بیان کرنے سے پہلے آنحضرت (ص) کا قول : ”کانی دعیت فاجبت“۔ گویا مجھے بلایا جارہا ہے اورمیں نے قبول کرلیا ہے ۔ ، یا ”انہ یوشک ان ادعی فاجیب“۔ نزدیک ہے کہ مجھے بلایا جائے اور میں اس کو قبول کرلوں۔ یا ”الا و انی اوشک ان افارقکم“ ۔ آگاہ ہوجاؤ کہ نزدیک ہے میں تم سے جدا ہوجاؤں۔ یا ”یوشک ان یاتی رسول ربی فاجیب“۔ نزدیک ہے کہ خدا کا فرستادہ آئے اور میں اس کی دعوت کو قبول کرلوں۔ اس قول کو حفاظ حدیث نے بہت مرتبہ ذکر کیا ہے (۸) ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا یہ قول ہمیں بتاتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی تبلیغ کا کوئی اہم کام باقی رہ گیا تھا جس کی وجہ سے آنحضرت (ص) پریشان تھے کہ شاید اس کو پہنچانے سے پہلے موت آجائے (اور اس کی تبلیغ کا وقت نہ ملے) اوررسالت ناتمام رہ جائے ۔
مسلم کے نقل کے مطابق (۹) ان پریشانیوں اوراہتمام کے بعد امیرالمومنین کی ولایت اور آپ کی پاک و پاکیزہ عترت کی ولایت کے علاوہ اور کسی چیز کو ابلاغ نہیں کیا ۔ اور کیا یہ مہم امر جو کہ اس ولایت پر منطبق ہے ،امامت کے اس معنی کے علاوہ کسی اور چیز پر دلالت کرتا ہے جو کہ بہت سی صحاح کی کتابوں میں بیان ہوئی ہے ؟! کیااس ولایت کامالک لوگوں پر ان سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟!
چھٹا قرینہ : علی (علیہ السلام) کی ولایت کو بیان کرنے کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا یہ کلام : ” ھنئونی ہنئونی ان اللہ تعالی خصنی بالنبوة و خص اھل بیتی بالامامة“ (۱۰) ۔ مجھے مبارک باد دو، مجھے مبارکباد دو، کیونکہ خدائے تعالی نے مجھے نبوت اور میرے اہل بیت کو امامت عطاء کی ہے ۔
یہ عبارت واضح طور پر بتارہی ہے کہ امامت ، اہل بیت سے مخصوص ہے اور سب سے پہلے امام حضرت علی (علیہ السلام) ہیں جن کو اس وقت امام بنایا گیا ۔ نیز مبارکباد دینا، بیعت کرانا، اورمحفل قائم کرنا جو تین دن تک چلتی رہی (جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے )(۱۱) ، خلافت و ولایت کے علاوہ کسی اور معنی سے سازگار نہیں ہے اور اسی وجہ سے شیخین (یعنی ابوبکر اور عمر) نے جس وقت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے ملاقات کی تو آپ کو مبارکبادی دی اور یہ بات پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کلام میں لفظ ”مولی“ کے معنی کو بیان کررہی ہے ، پس جو بھی مولی کی صفت سے آراستہ ہے وہ شخص لوگوں پر ان سے زیادہ حق رکھتا ہے ۔
ساتواں قرینہ : ولایت کو بیان کرنے کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا یہ کلام : ”فلیبلغ الشاھد الغائب“۔ جو لوگ حاضر ہیں وہ غایبین تک یہ بات پہنچا دیں، یہ روایت پہلے بیان ہوچکی ہے (۱۲) ۔
کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) محبت و موالات اور مدد جیسے امور کو جو کہ لوکوں کے درمیان پہلے سے رائج ہیں اور کتاب و سنت کے ذریعہ سب کچھ پہلے سے واضح ہوچکا ہے، اس طرح سے ابلاغ کریں گے کہ جو لوگ موجود نہیں ہیں ان تک بھی یہ بات پہنچا دینا اور اس قدر اس بات کے لئے اہتمام کیا ا ور اس کام کی اس قدر تاکید کی ؟ میںنہیں سمجھتا کہ آپ کی ہلکی سے ہلکی رائے بھی اس راستہ کو قبول کرے ، کیونکہ بے شک آپ کہیں گے : یقینا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے سامنے اہم مسئلہ تھا جس کو بیان کرنے کا موقع نہیں سمجھ رہے تھے اور جو لوگ اس اجتماع میں موجود تھے وہ اس سے آگاہ نہیں تھے اور یہ اہم مسئلہ ، امامت کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا جس کے ذریعہ دین کامل، نعمت تمام اور پروردگار عالم کی خشنودی حاصل ہوگئی۔
اور اس مجمع میں موجود لوگوں نے بھی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کلام سے اس کے علاوہ کوئی دوسرا مطلب اخذ نہیں کیا اور اس اجتماع میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے کوئی دوسرا کلام بھی نہیں سنا ، تاکہ یہ کہا جائے کہ آنحضرت (ص) نے اس کا حکم دیا ہے اور یہ معنی صرف اولی کے معنی سے مناسبت رکھتا ہے ۔
آٹھواں قرینہ : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ابوسعید خدری اور جابر (۱۳) کی روایت کی بنیاد پر ولایت کا پیغام بیان کرنے کے بعد فرمایا : ”اللہ اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة و رضا الرب برسالتی والولایة لعلی بن ابی طالب بعدی “۔ دین کے کامل ہونے،نعمتوں کی تکمیل ، پیغام رسانی سے خدا کی خشنودی ، میری رسالت اور علی کی ولایت پر اللہ اکبر۔اور وہب (۱۴) کے لفظ میں آیا ہے : ”انہ ولیکم بعدی“ ۔ یقینا وہ میرے بعد تمہارے ولی ہیں ۔ اور حضرت علی (علیہ السلام) نے جو پیغمبر سے روایت کی ہے جو کہ پہلے گذر گئی ہے(۱۵) ، اس میں بیان ہوا ہے ”ولی کل مومن بعدی“ ، میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں ۔
نیز ترمذی ، ا حمد ، نسائی، ابن ابی شیبہ ، طبری اور دوسرے حفاظ نے صحیح سند کے ساتھ اس کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیا ہے (۱۶) : ” ان علیا منی و انا منہ و ھو ولی کل مومن بعدی“۔ یقینا علی مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کے ولی ہیں، دوسری روایت میں ذکر ہوا ہے : ”ھو ولیکم بعدی“۔ وہ میرے بعد تمہارے ولی ہیں۔
ابونعیم نے ”حلیة الاولیاء “ (۱۷) میں ا وردوسرے علماء (۱۸) نے صحیح سند کے ساتھ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیا ہے : ” من سرہ ان یحیی حیاتی، و یموت مماتی، و یسکن جنة عدن غرسھا ربی ، فلیوال علیا من بعدی، و لیقتد بالائمة من بعدی، فانھم عترتی خلقوا من طینتی “ ۔ جو بھی چاہتا ہے کہ میری طرح زندگی بسر کرے اور میری طرح دنیا سے جائے اور جنت عدن جس کو پروردگار نے خود بنایا ہے ، زندگی بسر کرے ، وہ میرے بعد علی کو دوست رکھے اور ان کے بعد آنے والے اماموں کی اقتداء کرے ،کیونکہ یہ میری عترت ہیں اور میری طینت سے خلق ہوئے ہیں۔
یقینا یہ تعبیرات ہمیں بتاتی ہیں کہ امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی ثابت شدہ ولایت ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نبوت پر مترتب ہے اور صاحب رسالت کے مقام (ان دونوں کے درمیان مراتب کے فرق کا خیال رکھتے ہوئے ،اولویت اور اولیت کے اعتبار سے)کے برابر ہے ۔ لفظ ”بعدی“ سے چاہے زمانہ کی دور مراد ہو اورچاہے مرتبہ کی دوری مراد ہو ۔ اس لحاظ سے ممکن نہیں ہے کہ اس صورت میں لفظ مولی سے لوگوں کے تمام کاموں میں اولویت کے علاوہ دوسرے معنی سمجھے جائیں، کیونکہ اگر لفظ مولی سے محبت و مدد کے معنی مراد لیے جائیں تو اس (لفظ بعدی کی) قید سے حدیث کے معنی بدل جائیں گے اورحضرت علی (علیہ السلام) کے افتخار کے بجائے عیب شمار ہوں گے (کیونکہ حدیث کے معنی اس طرح ہوجائیںگے میرے بعد ان سے محبت کرنا اور ان کی مدد کرنا،میری حیات میں محبت و مدد نہ کرنا) ۔
نواں قرینہ : ولایت کو ابلاغ کرنے کے بعد پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا یہ کلام : ”اللھم انت شھید علیھم انی قد بلغت و نصحت “ ۔ خدایا تو خود ان لوگوں پر گواہ ہے کہ میں نے تیرے حکم کو پہنچا دیا اور ضروری سفارش بھی کردی ۔ امت کی تبلیغ اور سفارش پر خدا کو گواہ بنانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو مسئلہ آج بیان کیا ہے وہ نیا مسئلہ ہے جس کو آج تک نہیں پہنچایا تھا ، اس کے علاوہ مولی کے تمام معانی پر جیسے محبت اور مدد کرنا جو کہ لوگوں کے درمیان رائج تھے ، شاہد اور گواہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ، مگر یہ کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے متعلق شاہد اور گواہ بنانا اسی صورت میں ٹھیک ہے جس کو ہم نے بیان کیا ہے ۔
دسواں قرینہ : مذکورہ حدیث(۱۹) کو بیان کرنے سے پہلے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا یہ کلام : ”ان اللہ ارسلنی برسالة ضاق بھا صدری و ظننت ان الناس مکذبی فاوعدنی لا بلغھا او لیعذبنی“ ۔ یقینا خداوند عالم نے مجھے ایسا پیغام پہنچانے کے لئے مامور کیا جس سے میرا سینہ تنگ ہوگیا تھا (اورمیں اس کی سنگینی کا بوجھ احساس کررہا تھا) اور میںگمان کرتاتھا (سمجھتا تھا ) کہ لوگ مجھے جھٹلائیںگے اور خدا نے مجھے ڈرایا کہ یا میں اس کو پہنچاؤں ورنہ مجھ پر عذاب کیا جائے گا ۔
ان الفاظ کے ساتھ بھی یہ حدیث وارد ہوئی ہے (۲۰) ۔ ”ان اللہ بعثنی برسالة ، فضقت بھا ذرعا (۲۱) و عرفت ان الناس مکذبی، فوعدنی لابلغن او لیعذبنی“ ۔ خداوند عالم نے مجھے ایسے پیغام کو پہنچانے کا حکم دیا جس کو انجام دینے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی (میرا سینہ تنگ ہوگیا اور مجھے کوئی راستہ نظر نہیں آیا) اورمیں سمجھ گیا کہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے ، پس خداوند عالم نے مجھے ڈرایا کہ یا اس پیغام کو پہنچا دو یا پھر عذاب کے لئے تیار ہوجاؤ۔
نیز ان الفاظ کے ساتھ بھی یہ حدیث وارد ہوئی ہے (۲۲) : ”انی راجعت ربی خشیة طعن اھل النفاق و مکذبیھم فاوعدنی لا بلغھا او لیعذبنی “ ۔ یقینا میں نے اپنے پروردگار کی طرف مراجعہ کیااس ڈر کی وجہ سے اہل نفاق میں میری تکذیب نہ کریں ،پس خداوند عالم نے مجھے ڈرایا، کہ یا اس کی تبلیغ کروں ا وراسے لوگوں تک پہنچاؤں یا پھر عذاب کیلئے تیار ہوجاؤں۔
یہ تمام عبارتیں ایک بہت بڑی خبر کو پہنچا رہی ہیں جس کے اعلان کرنے میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) منافقین کی خیانت اورتکذیب سے ڈر رہے تھے اور اس بات سے ڈرر ہے تھے کہ وہ کہیں گے : یہ اپنے چچا زاد بھائی کی طرفداری کررہے ہیں اور یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ مقام ،امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے مخصوص تھی اور محبت و مدد کرنے سے متعلق نہیں ہے جس میں تمام مسلمان حضرت علی (علیہ السلام) کے ساتھ اس میں شریک ہیں اور یہ ”اولی بہ امر ہونے اوران کے ساتھ رہنے کے معنی میں نہیں ہے (۲۳) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.