۱۔ تذکرة الخواصّ: 20 (ص 32).
۲۔ در ص 84 ـ 85 همین کتاب.
۳۔ آیت میں (أم یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى ما آتاهُم اللهُ مِنْ فَضْلِهِ); یہ کہ لوگ اس چیز سے حسد کرتے تھے جس کو خداوند عالم نے ان کے لئے عطا کیا تھا (سورہ نساء، آیت ۵۴) ۔ ابن مغازلى نے مناقب (ص267، ح 314)، و ابن أبى الحدید نے شرح نهج البلاغه 2: 236 (7/220، خطبه 108)، وحضرمى شافعى نے الرشفة: 27 میں نقل کیا ہے کہ یہ آیت حضرت علی (علیہ السلام) اور اس علم کے متعلق جو آپ سے مخصوص ہے نازل ہوئی ہے ۔
۴۔ اس عبارت ”فیقلبون علیہ ظھر المجن“ کے متن میں استعمال ہوئی ہے جو کہ اس شخص کے لئے ضرب المثل ہے جو اپنے دوست کے ساتھ محبت اور رعایت کرے اور پھر اس کے مقابلے میں کھڑا ہوجائے اور اس سے دشمنی کرے ۔ ”مجن“ کے معنی ڈھال کے ہیں اور اس محاورہ کی وضاحت یہ ہے : جب لشکر ، دشمن سے مقابلہ کرتا ہے تو سپر کو دشمن کی طرف اوراس کی پشت کو اپنے لشکر کی طرف کرلیتا ہے ،لہذا اگر کوئی خیانت کرے اوردشمن سے ملحق ہوجائے تو اس کی ڈھال کی حالت برعکس ہوجاتی ہے یعنی ڈھال کو اپنی فوج اور طاقت کی طرف اور ڈھال کی پشت کو دشمن کی طرف قرار دیتا ہے ۔
امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی ایک حدیث میں ابن عباس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ”انی اشرکتک فی امانتی و لم یکن رجل من اھلی اوثق منک فی نفسی ، فلما رایت الزمان قد کلب ، والعدو قر حرب، قلبت لابن عمک ظھرالمجن“۔ مراجعہ کریں : النهایة، ابن اثیر 1: 308; مجمع البحرین، طریحى 4: 174; شرح نهج البلاغة، ابن أبی الحدید 16/167 ـ 169).
5 ـ (مسند احمد 1/109).
6 ـ (کنز العمّال 11/630، ح 33072).
7 ـ جریر، عبدالله بن جابر بجلى، متوفّاى (51، 54). حدیث او در مجمع الزاوئد، حافظ هیثمى 9: 106 به نقل از المعجم الکبیر طبرانى (2/375، ح2505 )موجود است.
8 ـ نگاه کن: ص 42 از همین کتاب. و ر.ک: اُسد الغابة، ابن أثیر 6: 136، شماره 5940; البدایة و النهایة، ابن کثیر 5: 209; و7: 348 (5/231، حوادث سال 10 هـ; 7/385، حوادث سال 40 ه); مسند أحمد (5/501، ح 18838); المعجم الکبیر، طبرانى (5/166، ح 4971).
9 ـ صحیح مسلم (5/25، ح 36، کتاب فضائل صحابه).
10 ـ حافظ ابو سعید خرکوشى نیشابورى، متوفّاى (407)، در کتاب خود «شرف المصطفى» آن را نقل کرده است.
11 ـ ر.ک: ص 78 همین کتاب.
12 ـ ر.ک: ص 61 همین کتاب.
13 ـ ر. ک: کتاب ما نزل من القرآن فی علیّ(علیه السلام)، حافظ أبونعیم اصفهانى، متوفّاى (430) (ص 56); و مناقب خوارزمى، متوفّاى (568): 80 (ص 135، ح 152).
14 ـ ر. ک: المعجم الکبیر، طبرانى (22/135).
15 ـ ر. ک: ص 58 همین کتاب.
16 ـ ر. ک: سنن ترمذى (5/590، ح 3712); مسند احمد (6/489، ح 22503); المستدرک على الصحیحین (3/144،ح 4652); السنن الکبرى (5/45، ح 8146، کتاب المناقب); وخصائص أمیر المؤمنین7 (ص 109، ح 89); مصنَّف ابن أبی شیبه (12/79، ح 12170).
17 ـ حلیة الأولیاء 1: 86.
18 ـ المستدرک على الصحیحین (3/139، ح 4642).
19 ـ ر.ک: ص 57 همین کتاب.
20 ـ الدرّ المنثور 2: 298 (3/116).
۲۱۔ یہ عبارت اصل میں اس طرح ہے : ”ضاق ذرعی بہ“ ۔ پھر لفظ ”ذرعی“ کو فاعلیت سے منقول کیا گیا ہے اور تمیز کے بناء پر یہ منصوب ہے ،جیسے : ”طبت بہ نفسا“۔ خدا وند عالم نے قرآن کریم میں فرمایا ہے : ”ولما جائت رسلنا لوطا سیء بھم و ضاق بھم ذرعا“ ۔ سورہ ھود ،آیت ۷۷) ۔ ”ذرع“ کے معنی مشہور عضو کے ہیں۔ (انگلیوں کے سرے سے کہنی تک) اور چونکہ ذراع سے اندازہ کیا جاتا ہے اور خوداسی پیمانہ (آدھے مٹر)کو ”ذرع“ کہتے ہیں ۔ اور”ضاق بالامر ذرعا“ کی عبارت کنایہ ہے تفسیرالمیزان 10/337; مرآة العقول 6/199; شرح اُصول کافى، ملاّ صالح مازندرانى7/354).
22 ـ فرائد السمطین (1/312، ح 250); و کتاب سلیم بن قیس (2/636، ح 11).
23- شفیعی مازندرانی / گزیده اى جامع از الغدیر، ص 113.