مختصر جواب:
مفصل جواب:
سوال : امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی بیعت ا ور مبارکباد دینے کا طریقہ کس طرح تھا؟
جواب : امام محمد بن جریر طبری نے ”کتاب الولایة“ میں ایک حدیث کو اپنی سند کے ساتھ زید بن ارقم سے نقل کیا ہے ،جس کے آخر میں اس طرح آیا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا :
اے لوگو ! کہو : ہم اپنے دل وجان سے آپ سے عہد کرتے ہیں اور اپنی زبانوں سے آپ سے وعدہ کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ آپ کے ہاتھوں میں دیتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ اس واقعہ کو بغیر کسی تبدیلی اور تحریف کے بغیر اپنے اہل و عیال تک منتقل کریں گے اور آپ کو اس بات پر گواہ بناتے ہیں اور خدا کی گواہی کافی ہے ۔
جو میں نے تم سے کہا ہے اس کو بیان کرو اور علی (علیہ السلام) کو امیر المومنین کے عنوان سے مبارکباد دو اور کہو : ”الحمدللہ الذی ھدانا لھذا و ما کنا لنھتدی لولا ان ھدانا اللہ“ (۱) ۔ شُکر ہے پروردگار کا کہ اس نے ہمیں یہاں تک آنے کا راستہ بتادیا ورنہ اس کی ہدایت نہ ہوتی تو ہم یہاں تک آنے کا راستہ بھی نہیں پاسکتے تھے ۔
یقینا خداوندعالم ہر آواز اور خائن کی خیانت کوجانتا ہے : ”إِنَّ الَّذینَ یُبایِعُونَکَ إِنَّما یُبایِعُونَ اللَّہَ یَدُ اللَّہِ فَوْقَ اٴَیْدیہِمْ فَمَنْ نَکَثَ فَإِنَّما یَنْکُثُ عَلی نَفْسِہِ وَ مَنْ اٴَوْفی بِما عاہَدَ عَلَیْہُ اللَّہَ فَسَیُؤْتیہِ اٴَجْراً عَظیماً“ ۔
بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ ہی کا ہاتھ ہے اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کرتا ہے اور جو عہد الٰہٰی کو پورا کرتا ہے خدا عنقریب اسی کو اجر عظیم عطا کرے گا ۔
اس بات کو بیان کرو جوخداوند عالم کی خوشنودی کا سبب ہے : ”إِنْ تَکْفُرُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ“ ۔ اگر تم کافر بھی ہوجاؤ گے تو خدا تم سے بے نیاز ہے ۔
زید بن ارقم کہتے ہیں : اس وقت تمام لوگوں نے ایک آواز ہو کر کہا : جی ہاں ہم نے سن لیا ہے اور ہم دل وجان سے خدا اور رسول کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں اور جن لوگوں نے سب سے پہلے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) اورحضرت علی (علیہ السلام) کی بیعت کی ان میں ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ ، زبیرپیش پیش تھے اور بعد میں تمام مہاجرین و انصار نے بیعت کی ۔ اور یہ بیعت اسی طرح چلتی رہی یہاں تک کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ظہرین کی نماز کو ایک ساتھ پڑھا اور پھر بیعت شروع ہوگئی اور آپ نے نماز مغربین کو ایک ساتھ پڑھا اور اسی طرح بیعت کا سلسلہ تین دن تک جاری رہا ۔
کتاب ”روضة الصفا“ (۴) کے مصنف مورخ ابن خاوند شاہ اپنی کتاب میں حدیث غدیر کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں : اس کے بعد رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنے مخصوص خیمہ میں بیٹھ گئے اور تمام لوگوں کو حکم دیا کہ امیرالمومنین کے خیمہ میں جاکر مبارکباد دیں، اور جب مردوں کی مبارکباد ختم ہوگئی تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے عورتوں کو حکم دیا کہ علی (علیہ السلام) کے پاس جا کر مبارکباد دیں، اور انہوں نے بھی مبارکباد دی ، عمربن خطاب نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا : ”ھنیئا لک یا ابن ابی طالب اصبحت مولای و مولی جمیع المومنین والمومنات“۔ اے ابوطالب کے بیٹے تمہیںمبارک ہو تم آج سے میرے اور تمام مرد و عورتوں کے مولی ہوگئے (۵) ۔
1 ـ أعراف: 43.
2. فتح: 10.
3 ـ زمر: 7.
4 ـ تاریخ روضة الصفاء، جزء دوم از مج 1: 173 (2/541); عبدالرحمن دھلوی نے مرآة الاسرار میںواقعہ کو نقل کیا ہے اور دوسرے علماء نے اس کتاب کی توثیق کی ہے ۔
5- شفیعی مازندرانی / گزیده اى جامع از الغدیر، ص 77.
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.