مختصر جواب:
مفصل جواب:
بہ ہرحال رسول خداکی فراموش شدہ سنت اور دین کو بچانا ضروری تھا اور فرزند رسول سے زیادہ کون اس کا مستحق ہوسکتا تھا ۔
امام حسین علیہ السلام نے پہلے اس جملہ سے تصریح کی :
وعلی الاسلام، السلام اذ قد بلیت الامة براع مثل یزید۔ جب امت اسلام یزید جیسے حکمراں کی حکمرانی میں پھنس جائے تو اسلام کی فاتحہ پڑھ دینی چاہئے (٢) ۔
امام نے وضاحت کے ساتھ فرمایا کہ اگر اسلام میں یزید جیسا خلیفہ ہو تو اسلام کی فاتحہ پڑھ دینی چاہئے اور اب حکومت یزید میں اسلام کے باقی رہنے کی کوئی امید باقی نہیں رہ گئی ہے ۔
اسی طرح امام نے بصرہ کے کچھ بزرگوں کے نام خط لکھے جس میں معاشرہ کی بدعتوں کی طرف اشارہ کیا اور یزید کی حکومت کے خلاف اپنے قیام کا ہدف، سنت رسول کی زندہ کرنا اور بدعتوں سے جنگ کرنا تحریر فرمایا اور فرمایا:
و انا ادعوکم الی کتاب اللہ و سنة نبیہ فان السنة قد امیتت و ان البدعة قد احییت وان استمعوا قولی و تطیعوا امری اھدکم سبیل الرشاد۔ میں تمہیں خدا کی کتاب اور رسول خدا کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہوں کیونکہ (اس گروہ نے)سنت پیغمبر کو ختم کردیا ہے اور (دین میں)بدعت کو زندہ کردیا ہے اگر میری بات کو سنوگے اور میرے حکم کی پیروی کرو گے تو میں تمہیںراہ راست کی طرف ہدایت کروں گا (٣) ۔
اور جب کربلا کے راستے میں فرزدق سے ملاقات کی تو آپ نے بدعتوں،حاکم شام کے برے کاموں اور خدا کے دین کی نصرت کی طرف اشارہ فرمایا:
یا فرزدق ان ھؤلاء قوم لزموا طاعة الشیطان و ترکوا طاعة الرحمان و اظھروا الفساد فی الارض وابطلوا الحدود و شربوا الخمور و استاثروا فی اموال الفقراء والمساکین و انا اولی من قام بنصرة دین اللہ و اعزاز شرعہ و الجھاد فی سبیلہ لتکون کلمة اللہ ھی العلیا ۔ ائے فرزدق! یہ وہ گروہ ہے جس نے شیطان کی پیروی کو قبول کرلیا ہے اور خدائے رحمان کی اطاعت کو ترک کردیا ہے، زمین میں کھلم کھلا فساد کرتے ہیں اور حدود الہی کو نابود کررہے ہیں، شراب پیتے ہیں، فقیروں اور بے چاروں کے اموال کو اپنی ملکیت قرار دے لیا ہے اور میںدین خداکی مدد اور اس کے قوانین کی سربلندی کے لئے اپنے آپ کو سب سے زیادہ مستحق سمجھتا ہوں تاکہ خدا کا دین کامیاب ہوجائے (٤) ۔
اس طرح کے مضمون کی تعبیر امام حسین کے دوسرے کلمات اور خطبات میں دیکھنے کو ملتی ہے دوسری فصل میں اس سے متعلق بیان کیا جائے گا اس بات کو امام کے دوسرے جملے کے ساتھ ختم کرتے ہیں:
امام نے کربلا کے راستے میں اپنے ایک خطبہ میں جو لشکر حر کے سامنے بیان کیا فرمایا:
الا ترون الی الحق لا یعمل بہ والی الباطل لا یتناھی عنہ لیرغب المؤمن فی لقاء ربہ حقا حقا ۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے پرہیز نہیں ہورہا ہے ایسے حالات میں مومن پر لازم ہے کہ اپنے پروردگار کے دیدار کی طرف راغب(شہید) ہوجائے ۔
امام حسین علیہ السلام ان کلمات کے ذریعہ اپنے قیام کے ہدف کو بیان کرتے ہیں اور باطل سے جنگ اور دین خدا کو باقی رکھنے کے لئے اپنی شہادت کی آمادگی کا بھی اعلان کرتے ہیں۔
اس بنیاد پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام حسین کے اہم اہداف میں سے ایک ہدف دین خدا کو زندہ کرنا،بدعتوں اور بنی امیہ کے فساد سے جنگ کرنا اور اسلام کو منافقین اور دشمنان خدا سے نجات دلانا تھا اور اس راستے میں آپ کو بہت بڑی کامیابی نصیب ہوئی اگرچہ آپ اورآپ کے تمام صحابی شہید ہوگئے لیکن سوئے ہوئے مسلمانوں کے افکار کو ہلاکر رکھ دیا اور ظالم حکومتوں کو لرزا دیا جس کے نتیجے میں اسلام زندہ کو کردیا اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے انقلاب کو مضمحل اور کمزور ہونے سے بچالیا اور مسلمانوں کو حیرت و گمراہی سے نجات دلادی ۔
مشہور ومعروف زیارت اربعین میں ملتا ہے :
وبذل مھجتہ فیک لیستنفذعبادک من الجھالة و حیرة الضلالة ۔ اس(حسین)نے اپنے پاک خون کو تیری راہ میں نثار کردیا تاکہ تیرے بندوں کو جہالت کی گمراہی اور حیرت سے نجات مل جائے ۔
اسی طرح ایک روایت میں امام صادق سے ملتا ہے : امام حسین کی شہادت کے بعد جس وقت ابراھیم بن طلحة بن عبیداللہ نے امام سجاد سے خطاب کرتے ہوئے کہا :
یا علی بن الحسین من غلب؟ ۔ ائے علی بن الحسین ! (اس جنگ میں) کون کامیاب ہوا؟۔
امام نے فرمایا:
اذا اردت ان تعلم من غلب و دخل وقت الصلاة فاذن ثم اقم۔ اگر یہ جاننا چاہتے ہو کہ کون(یزید یا امام حسین علیہ السلام)کامیاب ہوا ہے تو جب نماز کا وقت آجائے تو اذان واقامت کہنا (اور اس وقت دیکھنا کہ کون باقی رہا اور کون چلا گیا) (٥) ۔
چوتھے امام کہنا چاہتے ہیں کہ یزیدکی حکومت کا مقصد رسول اللہ کے نام کو مٹانا تھا لیکن امام حسین نے اپنی شہادت دے کر اس کو اس کام سے روکا اذان اور اقامت کے وقت نام محمد جو کہ اس کے مکتب کے باقی ہونے کی علامت ہے لیا جاتا ہے (اور جتنا وقت گذرتا جائے گا یہ حقیقت آشکار ہوتی جائے گی) (6) ۔
بقول ایک شاعر کے:
ای یاد تو درعالم، آتش زدہ بر جان ھا
ھر جا ز فراق تو چاک است گریبان ھا
امام حسین علیہ السلام نے پہلے اس جملہ سے تصریح کی :
وعلی الاسلام، السلام اذ قد بلیت الامة براع مثل یزید۔ جب امت اسلام یزید جیسے حکمراں کی حکمرانی میں پھنس جائے تو اسلام کی فاتحہ پڑھ دینی چاہئے (٢) ۔
امام نے وضاحت کے ساتھ فرمایا کہ اگر اسلام میں یزید جیسا خلیفہ ہو تو اسلام کی فاتحہ پڑھ دینی چاہئے اور اب حکومت یزید میں اسلام کے باقی رہنے کی کوئی امید باقی نہیں رہ گئی ہے ۔
اسی طرح امام نے بصرہ کے کچھ بزرگوں کے نام خط لکھے جس میں معاشرہ کی بدعتوں کی طرف اشارہ کیا اور یزید کی حکومت کے خلاف اپنے قیام کا ہدف، سنت رسول کی زندہ کرنا اور بدعتوں سے جنگ کرنا تحریر فرمایا اور فرمایا:
و انا ادعوکم الی کتاب اللہ و سنة نبیہ فان السنة قد امیتت و ان البدعة قد احییت وان استمعوا قولی و تطیعوا امری اھدکم سبیل الرشاد۔ میں تمہیں خدا کی کتاب اور رسول خدا کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہوں کیونکہ (اس گروہ نے)سنت پیغمبر کو ختم کردیا ہے اور (دین میں)بدعت کو زندہ کردیا ہے اگر میری بات کو سنوگے اور میرے حکم کی پیروی کرو گے تو میں تمہیںراہ راست کی طرف ہدایت کروں گا (٣) ۔
اور جب کربلا کے راستے میں فرزدق سے ملاقات کی تو آپ نے بدعتوں،حاکم شام کے برے کاموں اور خدا کے دین کی نصرت کی طرف اشارہ فرمایا:
یا فرزدق ان ھؤلاء قوم لزموا طاعة الشیطان و ترکوا طاعة الرحمان و اظھروا الفساد فی الارض وابطلوا الحدود و شربوا الخمور و استاثروا فی اموال الفقراء والمساکین و انا اولی من قام بنصرة دین اللہ و اعزاز شرعہ و الجھاد فی سبیلہ لتکون کلمة اللہ ھی العلیا ۔ ائے فرزدق! یہ وہ گروہ ہے جس نے شیطان کی پیروی کو قبول کرلیا ہے اور خدائے رحمان کی اطاعت کو ترک کردیا ہے، زمین میں کھلم کھلا فساد کرتے ہیں اور حدود الہی کو نابود کررہے ہیں، شراب پیتے ہیں، فقیروں اور بے چاروں کے اموال کو اپنی ملکیت قرار دے لیا ہے اور میںدین خداکی مدد اور اس کے قوانین کی سربلندی کے لئے اپنے آپ کو سب سے زیادہ مستحق سمجھتا ہوں تاکہ خدا کا دین کامیاب ہوجائے (٤) ۔
اس طرح کے مضمون کی تعبیر امام حسین کے دوسرے کلمات اور خطبات میں دیکھنے کو ملتی ہے دوسری فصل میں اس سے متعلق بیان کیا جائے گا اس بات کو امام کے دوسرے جملے کے ساتھ ختم کرتے ہیں:
امام نے کربلا کے راستے میں اپنے ایک خطبہ میں جو لشکر حر کے سامنے بیان کیا فرمایا:
الا ترون الی الحق لا یعمل بہ والی الباطل لا یتناھی عنہ لیرغب المؤمن فی لقاء ربہ حقا حقا ۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے پرہیز نہیں ہورہا ہے ایسے حالات میں مومن پر لازم ہے کہ اپنے پروردگار کے دیدار کی طرف راغب(شہید) ہوجائے ۔
امام حسین علیہ السلام ان کلمات کے ذریعہ اپنے قیام کے ہدف کو بیان کرتے ہیں اور باطل سے جنگ اور دین خدا کو باقی رکھنے کے لئے اپنی شہادت کی آمادگی کا بھی اعلان کرتے ہیں۔
اس بنیاد پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام حسین کے اہم اہداف میں سے ایک ہدف دین خدا کو زندہ کرنا،بدعتوں اور بنی امیہ کے فساد سے جنگ کرنا اور اسلام کو منافقین اور دشمنان خدا سے نجات دلانا تھا اور اس راستے میں آپ کو بہت بڑی کامیابی نصیب ہوئی اگرچہ آپ اورآپ کے تمام صحابی شہید ہوگئے لیکن سوئے ہوئے مسلمانوں کے افکار کو ہلاکر رکھ دیا اور ظالم حکومتوں کو لرزا دیا جس کے نتیجے میں اسلام زندہ کو کردیا اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے انقلاب کو مضمحل اور کمزور ہونے سے بچالیا اور مسلمانوں کو حیرت و گمراہی سے نجات دلادی ۔
مشہور ومعروف زیارت اربعین میں ملتا ہے :
وبذل مھجتہ فیک لیستنفذعبادک من الجھالة و حیرة الضلالة ۔ اس(حسین)نے اپنے پاک خون کو تیری راہ میں نثار کردیا تاکہ تیرے بندوں کو جہالت کی گمراہی اور حیرت سے نجات مل جائے ۔
اسی طرح ایک روایت میں امام صادق سے ملتا ہے : امام حسین کی شہادت کے بعد جس وقت ابراھیم بن طلحة بن عبیداللہ نے امام سجاد سے خطاب کرتے ہوئے کہا :
یا علی بن الحسین من غلب؟ ۔ ائے علی بن الحسین ! (اس جنگ میں) کون کامیاب ہوا؟۔
امام نے فرمایا:
اذا اردت ان تعلم من غلب و دخل وقت الصلاة فاذن ثم اقم۔ اگر یہ جاننا چاہتے ہو کہ کون(یزید یا امام حسین علیہ السلام)کامیاب ہوا ہے تو جب نماز کا وقت آجائے تو اذان واقامت کہنا (اور اس وقت دیکھنا کہ کون باقی رہا اور کون چلا گیا) (٥) ۔
چوتھے امام کہنا چاہتے ہیں کہ یزیدکی حکومت کا مقصد رسول اللہ کے نام کو مٹانا تھا لیکن امام حسین نے اپنی شہادت دے کر اس کو اس کام سے روکا اذان اور اقامت کے وقت نام محمد جو کہ اس کے مکتب کے باقی ہونے کی علامت ہے لیا جاتا ہے (اور جتنا وقت گذرتا جائے گا یہ حقیقت آشکار ہوتی جائے گی) (6) ۔
بقول ایک شاعر کے:
ای یاد تو درعالم، آتش زدہ بر جان ھا
ھر جا ز فراق تو چاک است گریبان ھا
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.