ہر ا?دمي اگر اپنے دل ميں جھانک کر ديکھے توکسي گمشدہ شئے کي تلاش ميں ہے، چونکہ گمشدہ شئي کي صحيح تحليل نہيں کر تا اس لئے ہرچيزميں اور ہر جگہ اس کو تلاش کرتا ہے ?
کبھي يہ سمجھتا ہے کہ اس کا گمشدہ سرمايا مال و دولت ہے، اگر اس کو اپني ا?غوش ميں رکھ لے تو دنيا کاکامياب انسان بن جائے گا ? اور جب کبھي اس کو بڑي مقدار ميں دولت ہاتھ ا?تي ہے تو فورا اس بات کي طرف متوجہ ہوتا ہے کہ لالچي لوگوں کي نظريں ، چاپلوس افراد کي زبانيں،ڈاکوؤں کي رسائي اور حاسدوں کي نظريں اس کي گھات ميں ہيں ?اور اس موقع پر اس کي حفاظت کا مسئلہ اس کے حاصل کرنے سے زيادہ سخت ہوجاتاہے اوراس کي پريشاني ميں اضافہ ہو جاتاہے ?
اس وقت اس کے سمجھ ميں ا?تا ہے کہ اس نے غلط راستہ اختيار کيا ہے اس کاگمشدہ سرمايا ، مال نہيں ہے ?
کبھي يہ سمجھتا ہے کہ خوبصورت، حسين اور صاحب ثروت شريک حيات اس کو حاصل کرنا چاہيے ، اسي ميں اس کي خوش نصيبي ہے؛ ليکن جب اس کو حاصل کرليتا ہے، اور اس کي حفاظت کے خطرات اور اس قسم کي شريک حيات کے حد سے زيادہ اخراجات کو ديکھتا ہے تو متوجہ ہوتا ہے کہ جس کي پہلے ا?رزو کرتا تھا ايک خواب سے زيادہ کچھ نہ تھا !
اسي طرح شہرت اور مقام ان تمام چيزوں کے مقابلہ ميںزيادہ دلکش ہوتے ہيں اورانسان يہ سمجھتا ہے کہ اسي ميں اس کي خوش نصيبي مضمر ہے ?ليکن اس کے مقابلہ ميں اس کے ساتھ ا?نے والي مشکلات ، اللہ اور اس کي مخلوق کے حوالے سے ذمہ دارياں اس سے کہيں زيادہ ہيں ?
مرحوم ايت اللہ بروجردي جوروحانيت کے عظيم درجے پر فايز تھے ، جب ان کي مرجعيت شيعي دنيا کے حوالے سے اوج پر تھي ، اور اس وقت انہوںاپني شہرت اور مقام کي مشکلات کا سامنا کيا تو فرمايا:اگر کوئي شخص خدا کے راستے کو چھوڑ کر ہوائے نفس کي خاطراس منصب کو حاصل کرے تو اس کے کم عقل ہونے ميں شک نہ کرنا!
يقينا يہ امور ايک سراب کي مانند ہيں کہ جب پياسہ اس کے پاس جاتا ہے تو يہ سراب پياسے کي پياس نہيں بجھاتا بلکہ بيابان ميں اس کي پياس ميں مزيد اضافہ کر ديتا ہے ?اور قرا?ن کے بيان کے مطابق” کسراب بقيعة يحسبہ الظمان ماء حتي اذا جاء ہ لم يجدہ شيئا“ (?)
خلقت کي حکمت کے حوالے سے کيا يہ ممکن ہے کہ انسان ميں اس طرح کا احساس پايا جاتا ہو اور اس کا کھويا ہوا سرمايا کہيں نہ مل پائے؟?يقينا پاني کے بغير پياس کا تصور حکمت پروردگار ميں نا ممکن ہے، جس طرح پاني کا وجود بغير پياسے کے بے معني ہے ?
جي ہاں ! صاحبان فہم افراد ا?ہستہ ا?ہستہ اس بات کو سمجھ جاتے ہيں ، کہ ان کا کھويا ہوا سرمايا جس کي وہ تلاش کررہے ہيں،جو ابھي تک نہيں مل سکا، وہ ہميشہ ان کے ساتھ ساتھ ہے اور ان کے تمام وجو د ميں پايا جاتا ہے ، وہ ان کي شہ رگ حيات سے زيادہ نزديک ہے، کہ جس کي طرف ان کي توجہ نہيں تھي”ونحن اقرب اليہ من حبل الوريد “(?) ?
اور حافظ کے بقول :
سالھا دل طلب جام جم از ما مي کرد برسوں سے دل ”جام جم“ کي درخواست ہم سے کرتا تھا ?
ا?نچہ خود داشت زبيگانہ تمنا مي کرد! جو چيز اس کے پاس موجود تھي دوسروں سے اس کي ا?رزوکرتاتھا ?
گوھري کز صدف و مکان بيرون بود وہ گوھر جو صدف اور مکان سے باہر تھا
طلب از گمشدگان لب دريا مي کرد! اس کودريا کے کنارے کھوئے ہوئے افراد سے طلب کرتا تھا ?
سعدي نے اس مطلب کو اس طرح بيان کيا:
اين سخن باکہ توان گفت کہ دوست در کنار من و من مھجورم !
يہ بات کس سے کہوں کيوں کہ دوست ميرے پاس ہے اور ميرے مہجور ہوں ?
انسان کا گمشدہ سرمايا ہميشہ اس کے ساتھ ہے؛ ليکن کچھ پردے ہيں جن کي وجہ سے نظر نہيں ا?تا ، انسان کي مشکلات اس کو حقيقت کي گلي ميںداخل نہيں ہونے ديتي?
تو کز سراي طبيعت نمي روي بيرون کجا بہ کوي حقيقت گذر توني کرد؟!
جب تم اس دنيا سے باہر نہيں نکل پارہے ہو تو پھر حقيقت کي گلي ميں کيسے داخل ہوسکتے ہو؟
اے ميرے عزيز ! تمہارا وجود خود تمہارے پاس ہے ، پردے ہٹانے کي کوشش کرو،تاکہ اپنے دل کے حسن کا ديدار ، اپني روح اورجان کوتسلي دے سکو? اپنے دل کے واقعي سکون کو اپنے پورے وجودميں احساس کرو اور زمين و ا?سمان کي قوتوں کو اپنے اختيار ميں کرسکو!
ياد رکھو تمہار گم شدہ سرمايا وہي وجود ہے کہ تمام عالم ہستي اس کا ا?ئينہ دار ہے ?
”ھو الذي انزل السکينة في قلوب المئومنين ليزدادوا ايمانا مع ايمانھم و للہ جنود السموات والارض و کان اللہ عليما حکيما “ ( ?)
?? سورہ نور ، ا?يت ?? ?
?? سورہ ق ،ا?يت ???
?? سورہ فتح ، آيت ? ?
حوالہ جات: