اسلام میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
makarem news

آج کی ڈائری

اسلام میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت

قرآن کریم نے امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کی اہمیت کو بیان کرنے کے لئے ان قوموں کی ہلاکت کو دلیل کے طور پر بیان کیا ہے جنہوں نے اس فریضہ کو فراموش کردیا تھا اور بعض بنی اسرائیل نے جب اس فریضہ کو چھوڑ دیا تو حضرت عیسی اور حضرت دائود نے ان پر لعنت کی تھی ۔ اسی طرح معصومین علیہم السلام کے بیان سے استفادہ ہوتا ہے کہ اس فریضہ کی اہمیت جہاد سے زیادہ ہے ، اسی کی وجہ سے شریعت کو تقویت ملتی ہے اور اس کو انجام دینے والے زمین کے اوپر خدا کے نمائندہ اور انبیاء کے جانشین ہوتے ہیں ۔

سوال: اسلام میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی کیا اہمیت ہے ؟
اجمالی جواب: :  قرآن کریم نے امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کی اہمیت کو بیان کرنے کے لئے ان قوموں کی ہلاکت کو دلیل کے طور پر بیان کیا ہے جنہوں نے اس فریضہ کو فراموش کردیا تھا اور بعض بنی اسرائیل نے جب اس فریضہ کو چھوڑ دیا تو حضرت عیسی اور حضرت دائود نے ان پر لعنت کی تھی ۔ اسی طرح معصومین علیہم السلام کے بیان سے استفادہ ہوتا ہے کہ اس فریضہ کی اہمیت جہاد سے زیادہ ہے ، اسی کی وجہ سے شریعت کو تقویت ملتی ہے اور اس کو انجام دینے والے زمین کے اوپر خدا کے نمائندہ اور انبیاء کے جانشین ہوتے ہیں ۔
تفصیلی جواب: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دو ایسے فرائض ہیں جن کو فراموش کردینے کی وجہ سے بعض گزشتہ قومیں ہلاک ہوگئیں ، قرآن کریم فرماتا ہے : ''فَلَوْ لا کانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِکُمْ أُولُوا بَقِیَّهٍ یَنْہَوْنَ عَنِ الْفَسادِ فِی الْأَرْضِ''۔ تو تمہارے پہلے والے زمانوں اور نسلوں میں ایسے صاحبان عقل کیوں نہیں پیدا ہوئے ہیں جو لوگوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے  (١)۔
اسی طرح قرآن کریم بنی اسرائیل کے اس گروہ کے متعلق فرماتا ہے جن پر حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت دائود نے لعنت کی تھی ، قرآن فرماتا ہے :
'': کَانُوا لاَ یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنکَر فَعَلُوهُ لَبِیْسَ مَا کَانُوا یَفْعَلُونَ '' انہوں نے جو برائی بھی کی ہے اس سے باز نہیں آتے تھے اور بدترین کام کیا کرتے تھے (٢) ۔
حقیقت میں یہ آشکار سازش تھی جس کی وجہ سے گنہگاروں کو ترغیب دلائی جاتی تھی اور یہی بات سب کے ہلاک ہونے کا سبب قرار پائی ۔
ایک دوسری آیت میں خداوندعالم نے فرمایا ہے کہ اسلامی امت کی یہ خاص خصوصیت ہے کہ وہ اس اصل کو وسیع پیمانہ پر انجام دیتی ہے اور اسی وجہ سے اس کو ''بہترین امت'' کہا گیا ہے :'' کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّه اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَ تُوْمِنُونَ بِاللهِ '' تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو (٣) ۔
اس آیت میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ امت کے بہترین ہونے کی دلیل کو امربالمعروف ، نہی عن المنکر اور خدا پر ایمان بیان کیا گیا ہے اور اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو ''خدا پر ایمان'' کے اوپر مقدم کیا ہے ، تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ ان دونوں فرائض کے بغیر دلوں میں خدا پر ایمان کی بنیادیں سست ہوجاتی ہیں اور اس کے ستون گر جاتے ہیں ، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ خدا پر ایمان انہی دو فریضوں پر استوار ہے (٤) ۔ جس طرح معاشرہ کے تمام امور کی اصلاح بھی انہی دونوں کے اوپر استوار ہے ۔
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : : «انَّ الاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْىِ عَنِ الْمُنْکَرِ فَرِیضَهٌ عَظِیمَهٌ بِها تُقامُ الْفَرایِضُ وَ تَاْمَنُ الْمَذاهِبُ وَ تَحِلُّ الْمَکاسِبُ وَ تَرُدُّ الْمَظالِمُ وَ تُعْمَرُ الاَرْضُ وَ یَنْتَصِفُ مِنَ الاَعْداءِ وَ یَسْتَقِیمُ الاَمْر ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خدا کے دو بڑے فرائض ہیں اور دوسرے تمام فرائض انہی دونوں کے اوپر قائم ہیں او ردونوں کے ذریعہ راستے پر امن ہوجاتے ہیں اور لوگوں کی روزی حلال ہوجاتی ہے ، لوگوں کے حقوق ادا ہوجاتے ہیں ، ان کے سایہ میں زمین آباد اور دشمنوں سے انتقام لے لیا جاتا ہے اور انہی کے سایہ میں تمام کام آسان ہوجاتے ہیں (٥) ۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنے نورانی بیان میں فرمایا ہے : : «قِوامُ الشَّریعَهِ الاَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْىُ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اقامَهُ الْحُدُودِ شریعت کی بنیاد امربالمعروف ، نہی عن المنکر اور حدود الہی کو قائم کرنے پر استوار ہے (٦) ۔
ان روایات سے اچھی طرح استفادہ ہوتا ہے کہ اگر معاشروں میں ان دونوں فرائض یعنی فساد کے مقابلہ میں تمام لوگوں کی ذمہ داریوں کو فراموش کردیا جائے تو شریعت کی بنیادیں نیست و نابود ہوجائیں گی اور آہستہ آہستہ اصل دین ختم ہوجائے گا اور معاشرہ کے امور تباہ و برباد ہوجائیں گے ۔
یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو زندہ کرنے والوں کو زمین پر خدا کا نمائندہ ، پیغمبر اور کتاب کا جانشین کہا ہے : مَنْ اَمَرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهى عَنِ الْمُنْکَرِ فَهُوَ خَلِیفَهُ اللهِ فِی اَرْضِهِ وَ خَلِیفَهُ رَسُولِ اللهِ وَ خَلِیفَهُ کِتابِهِ (٧) ۔
حضرت علی علیہ السلام نے دوسرے تمام فرائض سے مقایسہ کرتے ہوئے ان دونوں فرائض کی بہت زیادہ اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :
«وَ ما اَعْمالُ الْبِرِّ کُلُّها وَ الْجِهادُ فِی سَبِیلِ اللهِ عِنْدَ الاَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْىِ عَنِ الْمُنْکَرِ اِلاَّ کَنَفْثَه فِى بَحْر لُجِّىٍّ . تمام نیک کام یہاں تک کہ خدا کی راہ میں جہاد بھی امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسے دریا کے سامنے انسان کا لعاب دہن (٨) ۔
اس تعبیر سے اچھی طرح استفادہ ہوتا ہے کہ اسلام میں اس موضوع کی کس قدر اہمیت ہے ، حضرت علی علیہ السلام دوسری جگہ پر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے تینوں مراحل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اَیُّهَا الْمُوْمِنُونَ، اِنَّهُ مَنْ رَاى عُدْواناً یُعْمَلُ بِهِ وَ مُنْکَراً یُدْعى اِلَیْهِ فَاَنْکَرَهُ بِقَلْبِهِ فَقَدْ سَلِمَ وَ بَرِیَ، وَ مَنْ اَنْکَرَهُ بِلِسانِهِ فَقَدْ اُجِرَ، وَ هُوَ اَفْضَلُ مِنْ صاحِبِهِ، وَ مَنْ اَنْکَرَهُ بِالسَّیْفِ لِتَکُونَ کَلِمَهُ اللّهِ هِىَ الْعُلْیا، وَ کَلِمَهُ الظّالِمِینَ هِىَ السُّفْلى، فَذلِکَ الَّذِی اَصابَ سَبِیلَ الْهُدى، وَ قامَ عَلَى الطَّریقِ، وَ نَوَّرَ فِی قَلْبِهِ الْیَقِینُ ۔ اے مومنین ! اگر کوئی دیکھے کہ کسی کے اوپر ظلم ہو رہا ہے اور لوگوں کو برے کام کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور وہ شخص صرف اپنے دل میں اس کا انکار کردے تو وہ صحیح و سالم ہے اور اس کے اوپر کوئی گناہ نہیں ہے اور جو اس کا اپنی زبان سے انکار کرے ،اس کو اللہ کی طرف سے اجر مل گیا اور اس کا مرتبہ پہلے والے سے برتر ہے اور جو بھی اللہ کا نام بلند کرنے اور ظالموں کو سرنگوں کرنے کے لئے تلوار سے مقابلہ کرنے کیلئے اٹھے ،اس کا مرتبہ ایسا جو صحیح راستہ پر لگ گیا ہو اور حقیقی راستہ پر گامزن ہوگیا ہو اور نور یقین اس کے دل پر پڑنے لگا ہو (٩) ۔ (١٠) ۔
 
حوالہ جات:
(1). سوره هود، آیه 116.
(2). سوره مائده، آیه 79.
(3). سوره آل عمران، آیه 110.
(4). رجوع شود به تفسیر نمونه، ذیل آیه.
(5). وسائل الشیعة، ج 11، ص 315، ح 6. مراجعه شود به تفسیر نمونه، ج 3، ص 38.
(6). غرر الحکم، حکمت 6817.
(7). مجمع البیان، ذیل تفسیر آیه 79 سوره مائده. رجوع شود به: تفسیر نمونه، ج 3، ص 37.
(8). نهج البلاغه، کلمات قصار، حکمت 374.
(9). نهج البلاغه، کلمات قصار، حکمت 373.
(10). گرد آوري از کتاب: «عاشورا ريشه‏ ها، انگيزه ‏ها، رويدادها، پيامدها»، سعید داودی و مهدی رستم نژاد،(زیر نظر آيت الله العظمى ناصر مكارم شيرازى)، انتشارات امام على بن ابى طالب(عليه السلام‏)، قم، 1388 ه. ش‏، ص 237.

تاریخ انتشار: « 2017/12/20 »
CommentList
*متن
*حفاظتی کوڈ غلط ہے. http://makarem.ir
قارئین کی تعداد : 8043