عاشورا ، تاریخ کا ایک عظیم واقعہ

عاشورا ، تاریخ کا ایک عظیم واقعہ


شروع میں عاشورا ایک شجاعت و دلاوری کی صورت میں ظاہر ہوا تھا ، پھراشک و آہ کے ساتھ ایک غم انگیز حادثہ میں تبدیل ہوگیا اور آخری صدیوں میں اس نے پھر اپنے پہلے چہرہ کو حاصل کرلیا یعنی آہ و آنسوئوں کے سیلاب کے درمیان مکتب حسینی کے عاشقوں نے اپنی شجاعت و دلیری کو آشکار کردیا اور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد میں انقلاب برپا کردیا ۔‌

محتشم کے آہ و اشک سے بھرے اشعار کے ساتھ''ھیھات منا الذلة '' اور ''ان الحیاة عقیدة و جھاد'' جیسے انقلابی نعرے جو تاریخ کربلا سے لئے گئے تھے ، آسمان میں گونجنے لگے ۔

دربارگاہ قدس کہ جای ملال نیست

سرھای قدسیان ہمہ بر زانوی غم است

جن و ملک بر آدمیان نوحہ می کنند

گویا عزای اشرف اولاد آدم است

خطباء اور شعراء کے افکار میں ایک نئی تبدیلی آگئی اور عزاداری کے ساتھ ساتھ کربلا کی شجاعت اور دلیری کے مختلف پہلو بھی اُجاگر ہوگئے ۔ اس شجاعت اور دلیری نے اسلامی جمہوری ایران کے انقلاب ، حزب اللہ لبنان کے پروگراموں اور عراق کے عاشور اور اربعین میں بہت موثر کردار ادا کیا ہے اور اسلامی ممالک کی فضائوں میں کل ارض کربلا اور کل یوم عاشورا کی آوازوں کو بلند کردیا ۔

جی ہاں ! یقینا عاشورا ایک شجاعت اور دلاوری تھی ، کیونکہ جس روز امام حسین (علیہ السلا) عراق کی نیت سے مکہ کو چھوڑ رہے تھے تو آپ نے فرمایا تھا :

''من کان فینا باذلا مھجتہ و موطنا علی لقاء اللہ نفسہ فلیرحل معنا'' ۔ جو بھی جان نثاری، شہادت اور اللہ سے ملاقات کرنے کے لئے آمادہ ہے وہ میرے ساتھ روانہ ہوجائے (١) ۔

کربلا کے نزدیک اس کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا :

''الا و ان الدعی ابن الدعی قد ترکنی بین السلة والذلة ، ھیھات منا الذلة '' ۔ ناپاک نسل کے ناپاک بیٹے نے مجھے تلوار یاذلت کو اپنانے کا اختیار دیا ، میں تلواروں کا استقبال کروں گا اور کبھی بھی ذلت کو قبول نہیں کروں گا (٢) ۔

اور امام حسین (علیہ السلام) کے اصحاب نے شب عاشورا اس سند پر دستخط کردئیے اور کہا : اگر ستر مرتبہ یا ہزار مرتبہ بھی قتل کردئیے جائیں اور پھر زندہ کئے جائیں تو ہم آپ کی مدد کرنے سے باز نہیں آئیں گے (٣) ۔

آپ کے شجاع بیٹے حضرت علی اکبر (علیہ السلام) نے کربلا کے راستہ میں اس جملہ ''اذن لا نبالی بالموت'' (٤) ۔ چونکہ ہم حق پر ہیں اس لئے ہمیں شہادت سے کوئی ڈر نہیں ہے ، کے ذریعہ اس شجاعت اور دلاوری کی تاکید فرمائی ۔

امام حسین (علیہ السلام) کا ہر ایک صحابی عاشور کے روز مقتل میں دشمن کے سامنے تسلیم نہ ہونے کے رجزکو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر پیش کرتا تھا اور اپنے دشمنوں کو تعجب میں ڈالتا تھا ۔

 حضرت زینب کبری (علیہا السلام) نے اپنے بھائی کے لاشہ کے نزدیک بیٹھیں اور زمین سے آپ کے خون کو اٹھا کر فرمایا : خدایا ! اس قربانی کو ہم (خاندان پیغمبر ) سے قبول فرما ! (٥) ۔

کربلا کی شیر دل حضرت زینب نے اپنے شجاعانہ خطبہ میں وضاحت کے ساتھ فرمایا : گریہ و زاری کرو ، خدا کی قسم بہت زیادہ گریہ کرو اور کم ہنسو ، کیونکہ تمہارے دامن پر ذلت کا داغ لگ چکا ہے جو کسی بھی پانی سے پاک نہیں ہوسکتا ، تم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذریت اور مشکلات میں اپنی پناہ گاہ کو قتل کردینے کی کس طرح اجازت دیدی ، وہ تمہارے معاشرہ کے منور چراغ کو خاموش کردیں اور تم خاموش بیٹھے رہو ؟ ! (٦) ۔

بے رحم ،خطرناک اور سفاک شخص ابن زیاد کے جواب میں پوری شجاعت کے ساتھ فرمایا : ''ما رایت الا جمیلا '' ۔ ہم نے کربلا میں بھلائی (شجاعت اور عظمت) کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ، ''ھولاء قوم کتب اللہ علیھم القتل ، فبرزوا الی مضاجعھم ...'' ۔ وہ ایسا گروہ تھا جن کی رگ رگ پر شہادت لکھی ہوئی تھی ، وہ اپنی ابدی آرام گاہ کی طرف تیزی کے ساتھ چلے گئے اور تو بہت جلد عدل الہی کی بارگاہ میں ان کے سامنے ظاہر ہوگا (٧) ۔

اور شام میں یزید کے سامنے اپنے دوسرے شجاعانہ خطبہ میں فرمایا :  زمانہ کے ناگوار حوادث نے مجھے ایسے حالات میں تیرے ساتھ بات کرنے کو مجبور کردیا ، میں تجھے ایک بہت پست اور ذلیل موجود تصور کرتی ہوں اور تو ہر طرح کی سرزنش اور توبیخ کے لائق ہے .... تو جو کچھ کرسکتا ہو کرلے ،لیکن کبھی بھی ہمارے نورکو خاموش نہیں کرسکتا اور ہمارے آثار کو نابود نہیں کرسکتا ! (٨) ۔

شام اور مدینہ کے نزدیک امام سجاد (علیہ السلام) نے اپنے خطبوں میں فرمایا : ہر کوئی تاریخ کے اس عظیم واقعہ کی شجاعت کو بیان کرنے والا ہے ۔

................................................................................

حواله جات

١۔  بحار الانوار ، جلد ٤٤ ، صفحہ ٣٦٧ ۔

٢۔  احتجاج طبرسی ، جلد ٢ ، صفحہ ٢٤ ۔

٣۔  دیکھئے : ناسخ التواریخ ، جلد ٢ ، صفحہ ١٨٠ ۔

٤۔  بحارالانوار ، جلد ٤٤ ،صفحہ ٣٦٧ ۔

captcha