آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اتوار کے دن اپنے درس خارج سے پہلے مسجد اعظم قم میں وہابیوں کی دینی مفاہیم سے متعلق غلط تفسیر او رمخالفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عقلاء اور وہ لوگ جو بدعت کو ختم کرناچاہتے ہیں ان کو مذہبی مجالس سے آگاہ رہنا چاہئے تاکہ بہت سے جاہلوں کے افراطی کاموں کی وجہ سے مخالفین کو بہانہ نہ مل سکے۔‌

آپ نے اپنے درس خارج کے شروع میں آٹھ شوال کو انہدام جنت البقیع کے غمناک دن کے متعلق فرمایا: وہابی دس الفاظ کی غلط تفسیر کرتے ہیں جیسے بدعت، زیارت قبور اور اس کے مانند دوسری چیزیں۔ اس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ وہابیوں کی اس قدر سنگدلی اور بے رحمی ایک افراطی گروہ کے اعمال کا رد عمل ہے جو ہرچیز سے توسل کرتے تھے، جیسے بہت پرانے درخت میں (ڈوریاں)اور کپڑے باندھا کرتے تھے۔
آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اس بات کی طرف توجہ دلائی : آج کے زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوگئے ہیں جن کا نام ہم نے جدید قاری رکھ دیا ہے وہ کہتے ہیں لا الہ الا فلان لا الہ الا زینب، لہذا جب ایسی باتیں کہی جائیں گی تو بہت سے لوگ ان کو مشترک سمجھیں گے اور مخالفین کو اس طرح بہانہ مل جائے گا، ہمیں ان دونوں کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔ ہمارے عقلاء ان لوگوں کے درمیان موجود ہیں ان کو متوجہ رہنا چاہئے ، جو لوگ بدعت کو ختم کرنا چاہتے ہیں ان کو ان دونوں گروہوںکی طرف متوجہ رہنا چاہئے اور ایسے جاہل ذاکروں(مداحوں)کو اجازت نہیںدینی چاہئے کہ وہ مذہبی مجالس کا اختیار اپنے ہاتھ میںلے کر جو ان کے منہ میں آئے اس کو بیان کریں اور نئی نئی باتیں ایجاد کریں۔
معظم لہ نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا جس میں رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے ایک شاعر کو شعر میں غلو کرنے کی وجہ سے متنبہ کیا تھا آپ نے فرمایا: مجھے خوشی ہوئی جب میں نے سنا کہ رہبر انقلاب نے اس شب شعری نشست میںجہاں دیگر شعرائے نے اشعار پڑھے انہیں میں ایک شاعر نے اپنے شعر میں غلو آمیز بات کہی تو آپ نے اسے ٹوکا اور کہا کہ استغفار کرو، اگر تمام حضرات اسی طرح سے غلط ذاکری کرنے والوں کو متوجہ کرتے رہیں تو یہ موجودہ حالت پیش نہیں آئے گی ، اس طرح کی باتوں کو رواج دینا خطرناک ہے اور میں خطرہ کا احساس کررہا ہوں۔
معظم لہ نے اپنی بات کوجاری رکھتے ہوئے فرمایا : مجھے خوشی ہے کہ یہ لوگ(وہابی)نابودی کی طرف قدم رکھ رہے ہیں۔ میں ایک کتاب تالیف کر رہا ہوں جس کا عنوان ”در سراشیبی سقوط وہابیت“(وہابیت زوال کے ڈھلان پر)جن میں بہت سی اسناد موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وہابیوں میں ایک گروہ ایسا پیدا ہوگیا ہے جو محمد بن عبدالوہاب کے نظریات کا مخالف ہے ہماری ان اسناد میں سے ایک سند وہ کتاب ہے جسے میں نے مکہ سے خریدا اس کا عنوان ہے اس کا عنوان ہے “ایسے مفاہیم جن کی اصلاح ہونی چاہئے“ اس کتاب میں دعا، بدعت، توسل، شفاعت اور ان جیسی چیزوں کو جائز مانا گیا ہے اس کتاب میں محمد بن عبدالوہاب کے افکار پر اعتراض کئے گئے ہیں۔یہ کتاب سعودی عرب میں بک رہی ہے اور سعودی حکومت بھی وہابیوں کے خلاف ہوچکی ہے اور پوری دنیا اس سخت و شدت پسند گروہ کی مخالف ہے۔
آپ نے کربلائے معلی پر وہابیوں کے حملہ سے متعلق فرمایا : ان لوگوں نے کربلا ئے معلی میں ایسی مجرمانہ حرکت انجام دی کہ جس میں تقریبا ایک لاکھ عورتوں اور بچوں کو قتل کیا تھا جب کہ ان کے مرد اس وقت مذہبی تقریب کیلئے نجف اشرف گئے ہوئے تھے کہ انہوں نے اس حال میں حملہ کر کے ان کو قتل کردیا ، امام علیہ السلام کی ضریح کو توڑ کر لوٹ لیا اور تمام جگہوں پر آگ لگا دی ، ان کے رسم و رواج یہ ہیں اور ایسی سیاہ تاریخ کو وہ اس دنیا میں چھوڑ کر جارہے ہیں اور ان کے نابود ہونے کی یہی بہترین دلیل ہے اور یہ نابود ہو کر رہیں گے انشاء اللہ۔
آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی نے فرمایا : وہابی تقریبا ۲۰۰ سال پہلے شدت پسندوں کی زیادتی اورشدت کی وجہ سے وجود میں آئے اور وہ بہت سے مسائل کے منکر ہوگئے ، جو بھی وہابی نہیں ہے ان کی نظر میں وہ مشرک ہے اور اس بناء پر اس کی جان و مال اور ناموس ان کے لئے مباح ہے ۔ انہوں نے شرک اور اسی طرح توسل اور دعا کے معنی کو نہیں سمجھا ہے اور بدعت کو نہیں پہچانا ہے ، اسی وجہ سے ان امور میںغلط فہمی کا شکار ہو کر بہت سے مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : محمد بن عبدالوہاب اپنے رسالہ میں کہتا ہے : اگر کوئی کہے کہ ائے رسول اللہ ہماری شفاعت کیجئے تو یہ شرک ہے اسے چاہئے کہ خدا سے رسول خدا(ص) کے واسطہ بنانے کو طلب کرے اور اگر خود رسول اللہ(ص) سے مانگے تو جائز نہیں ہے ۔ وہابی اہل عقل ومنطق نہیں ہیں، یہ بہت متعصب لوگ ہیں جو اپنے آپ کو عالم و فاضل سمجھتے ہیں اور دوسروں کو کچھ نہیں سمجھتے وہ اسی رسالہ میں اپنے مخالفین کو مشرک کہتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کسی کی بات کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
معظم لہ نے آخر میں فرمایا : وہابیوں نے اسلام او رتاریخ کے تمام آثار کو خراب کردیا ہے جو بہت گرانبہا عمارتیں تھیں اور دنیا کے کسی کونے میں حجاز سے زیادہ اسلامی آثار نہیں تھے ۔انہوں نے تمام روضے،ائمہ(ع)اور بزرگوںکی قبریں اور پیغمبر اسلام(ص) کے والد عبداللہ کے گھر کو خراب کردیا ، ہر قوم و ملت اپنے تاریخی آثار سے زندہ رہتی ہے اور انہیں آثار سے ملت کی گذشتہ باتوں کا علم ہوتا ہے ۔ اسلام ۱۴۰۰ سال پرانا دین ہے یہ تمام آثار اسلام کی زندگی کا ایک کارنامہ ہیں لیکن ان کارناموں کو برباد اور نابود کردیا، آئمہ بقیع کے احترام سے قطع نظر کہ ان کے حق میںظلم ہوا انہوں نے تاریخی آثار کو خاک میں ملا دیا آج دینا کے تمام ملک اپنی ملت کے آثار کو بنا رہے ہیں ، مثلا اکثر ملکوں میں گمنام جانبازوں(فوجی سپاہیوں)کی قبریں موجود ہیں ، ہم گمنام شہیدوں کی قبر بناتے ہیں تاکہ ان کے آثار باقی رہیں۔ آثار قدیمہ، تاریخ کی رونق ہیں۔ان سے کہنا چاہئے کہ اگر تم قبرو قبرستان کے مخالف ہو تو پھر یہ پیغمبر اکرم(ص) کی ضریح، گنبد اور بارگاہ کیوں باقی ہے، شرک میں تو استثناء نہیں ہے ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم میں اس کو خراب کرنے کی ہمت نہیں تھی ورنہ اس کو بھی خراب کردیتے۔
مطلوبه الفاظ :
captcha